فقیرِ کامل اور سجادہ نشین کی خانقاہ میں فرق | Faqeer e Kamil aur Sajjada Nasheen ki Khanqah mein Farq
فقیرِ کامل اور سجادہ نشین کی خانقاہ میں فرق
تحریر: رافیعہ گلزار سروری قادری۔ لاہور
ولی کامل اپنے وصال سے قبل اپنے خاص منتخب طالبوں کو خلافت عطا فرماتا ہے۔ جن میں سے صرف ایک خلیفۂ اکبر جبکہ باقی خلیفہ اصغر ہوتے ہیں۔ خلیفۂ اکبر ہی اس ولی کامل، فقیرِ کامل کا حقیقی روحانی وارث اور سلسلہ کا سربراہ ہوتا ہے۔ فقیر کامل خود اپنے روحانی وارث کی تربیت کر کے اس کی ذمہ داری لگاتا ہے کہ وہ اس ( فقیرِ کامل) کے بعد لوگوں کو راہِ حق کی طرف بلائے۔
یہ وارث کامل فقیر ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے عمل حتیٰ کہ شکل و صورت میں بھی اپنے مرشد کا عین بعین ہوتا ہے اور اپنے مرشد کی طرح فقر کا منبع ہوتا ہے۔ فقر کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے‘‘۔ فقیر اللہ سے اللہ کے سوا کچھ نہیں مانگتا۔ اسے صرف اللہ کے دیدار، قرب اور خوشنودی کی طلب ہوتی ہے اور اس مقصد کے لیے اس کی توجہ صرف اور صرف اللہ کی طرف ہوتی ہے ۔ وہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا کے دلدل میں نہیں پھنستا اور اپنے پیرو کاروں کو بھی یہی درس دیتا ہے ۔
چونکہ فقیر کامل اپنے مرشد کا عین بعین ہوتا ہے اس لیے اس کی خانقاہ بھی اولیا کرام کی خانقاہ کا عکس ہوتی ہے۔ خانقاہ میں رہنے والے ہر انسان کی تربیت اسلام کی تعلیمات کے مطابق کی جاتی ہے ۔ طالبانِ مولیٰ کو سکھایا جاتا ہے کہ اللہ کا قرب و دیدار کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے اور یہ تو طالب پر منحصر ہے کہ وہ مرشد کی صحبت سے کتنا فیض حاصل کرتا ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطا ن محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فقیرِ کامل اور اس کی خانقاہ کے متعلق فرماتے ہیں ’’فقیرِ کامل کی زندگی اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر حجت ہوتی ہے۔ فقیر جہاں بھی زندگی گزارتا ہے جامع صفاتِ الٰہی ہونے کی وجہ سے نورِ حق سے معاشرے کو منور کرتا ہے۔ اسی طرح فقیرِ کامل کی خانقاہ حیات بخش مرکز ہوتی ہے جہاں لوگوں کا تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب ہوتا ہے۔‘‘ فقیرِ کامل کی خانقاہ ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں دیدارِ الٰہی اور مجلسِ محمدیؐ کی حضوری کی تعلیم دی جاتی ہے۔ خانقاہ طالبانِ مولیٰ کے لیے تربیت گاہ ہے جہاں رہ کر طالبانِ مولیٰ صحبتِ مرشد اور ذکر و تصور اسم اللہ ذات سے تزکیۂ نفس اور روح کی طہارت حاصل کر کے اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃالنور میں ارشاد فرماتا ہے: ’’یہ وہ گھر ہیں جن کے بلند کیے جانے اور جن میں اللہ کے نام کا ذکر کیے جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے (یہ وہ گھر ہیں کہ اللہ والے) ان میں صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ یہ وہی مردانِ خدا ہیں جنہیں اللہ کا ذکر کرنے، نماز ادا کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ تجارت غافل کرتی ہے اور نہ خرید و فروخت۔ (دین کے فرائض میں ہمہ وقت مصروف ہونے کے باوجود) یہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی ۔‘‘ ( النور ۔36-37)
’’خانقاہ‘‘ در حقیقت عربی زبان کا لفظ ہے جس سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں بظاہر دنیا سے کٹ کر صرف اور صرف اللہ کا ہو کر رہا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ فرماتے ہیں ’’خانقاہ نشینوں کے فرائض میں داخل ہے کہ مخلوق سے (مکمل طور پر) قطع تعلق کر لیں اورحق کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ لیں ۔‘‘ (عوارف المعارف )
خانقاہ میں مرشد کامل کی صحبت میں رہ کر حاصل کردہ تعلیم و تربیت عام انسان کو درویش بنا دیتی ہے۔ خانقاہی نظام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور سے قا ئم ہے جیساکہ اصحابِ صفہ تمام دنیا سے کٹ کر صفہ کے چبوترے پر رہتے اور صبح شام اپنے مرشد پاک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے فیض یاب ہوتے۔ لیکن باقاعدہ طور پر خانقاہ کی بنیاد اولیا اللہ نے اس وقت رکھی جب عام مدارس طالبانِ مولیٰ کی باطنی پیاس بجھانے میں ناکام رہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفائے راشدین کے دور میں مدارس میں دین کے ظاہری و باطنی دونوں پہلوؤں کی تعلیم و تربیت دی جاتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ معدوم ہوتا دکھائی دیا تو اولیا اللہ نے خانقاہوں کے ذریعے باطنی علوم عوام الناس میں بانٹنے کا بیڑہ اُٹھایا۔ برصغیر پاک و ہند میں ہزاروں خانقاہیں تھیں یہی وجہ ہے کہ اس وقت ایسی نفسانیت اور مادیت پرستی نہ تھی جیسی آج ہے۔ پھر آہستہ آہستہ مسلمانوں کی دین سے دوری کی وجہ سے غیر مسلم اقوام نے ان خانقاہوں پر قبضہ کر کے مسلمانوں کے دین کو صرف ظاہر پرستی تک محدود کر دیا اور فرقہ واریت کو فروغ دیا۔ دوسری طرف دین سے دوری اور دنیا کی بڑھتی ہوئی طلب کو دیکھتے ہوئے اولیا اللہ نے بھی خود کو چھپا لیا۔ نوجوان طبقہ میں انتشار ان تعلیمی اداروں نے ڈالا ہے جو روحانیت جیسے اہم شعبے سے خالی تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ انگریزوں نے مسلمانوں کے صدیوں سے قائم خانقاہی نظام کو تباہ کرنے کے لیے خانقاہ کی سربراہی کو وراثت کے قانون کے تحت ولی اللہ کے وصال کے بعد اس کے اصل روحانی وارث فقیرِ کامل کی بجائے اس کے ظاہری فرزند کے حوالے کر دیا خواہ وہ اس کا اہل ہو یا نہ۔ اگر کوئی ولی اللہ اپنی زندگی میں ہی اپنے روحانی وارث کو اپنے مزار کا سجادہ نشین بنا دیتا ہے تو وراثت کے قانون کے مطابق عدالت اس کا حق نہیں دیتی اور مزار اور خانقاہ ولی کے فرزندوں کے حوالے کر دیتی ہے۔ ضروری نہیں کہ سجادہ نشین یا گدی نشین بننے والا بیٹا ولی کا روحانی وارث بھی ہو۔ یہ تو ان کی خوش قسمتی ہوتی ہے کہ وہ کسی ولی کامل کے گھر پیدا ہوتے ہیں۔ آج کل کے سجادہ نشین اور گدی نشین کا تو یہ حال ہے کہ وہ گدی کے حصول کے لیے قتل و غارت سے بھی گریز نہیں کرتے کیونکہ ان کی نظر مزار سے آنے والی کمائی پر ہوتی ہے ۔اور اگر وہ سیاست میں قدم رکھیں تو مریدین کی صورت میں بھاری مقدار میں ووٹ بھی حاصل ہوجاتے ہیں۔ سجادہ نشینی کی راہِ تصوف و معرفت میں کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی اب مزار کے سربراہ کے طور پر کوئی خاص حیثیت رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی سجادہ نشین یا گدی نشین مزار کی اچھی طرح سے دیکھ بھال نہیں کر پاتا تو حکومت اس مزار اور اس مزار سے ملحقہ خانقاہ کو اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہے۔ اس طرح کے سجادہ نشینوں کی وجہ سے لوگ اصل اولیا سے بھی دور ہو گئے ہیں کیونکہ وہ سجادہ نشین کو اس کی ظاہری حیثیت کی وجہ سے ولی سمجھ بیٹھے ہیں اور جب اس کو تمام روحانی اوصاف اور قوتوں سے عاری پاتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اس دور میں کوئی ولئ کامل ہے ہی نہیں۔ بقول اقبال
اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
مسندِ تلقین و ارشاد اللہ کے حکم سے اولیا اللہ اس جہان فانی سے پردہ کرنے سے پہلے اپنے روحانی وارث کے سپرد کرتے ہیں تاکہ مخلوقِ خداکی رہنمائی کی جاسکے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اس شعر کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شاہینوں کے نشیمن، جہاں لوگوں کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن کی جاتی تھی اب زاغوں (کوے ) کے قبضے میں ہیں۔ ان کا مقصد صرف مال اکٹھا کرنا ہے کیو نکہ تلقین وارشاد کی مسند تو انہیں وراثت میں ملی ہے۔ ‘‘ آپ مدظلہ الاقدس مزید فرماتے ہیں ’’لیکن اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ اولاد میں ولایت وفقر کے حق دار نہیں ہوتے، ہوتے ہیں ضرور ہوتے ہیں اور بعض اوقات عام لوگوں سے زیادہ حقدار ہوتے ہیں لیکن آج کے دور میں تو اکثر نااہلوں کو ہی گدی نشین دیکھا گیا ہے ۔‘‘ بقول اقبالؒ
قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ کہہ سکتے تھے جو ، رخصت ہوئے
خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن
اس شعر میں اقبالؒقُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ وہ ولئ کامل فقیرِ کامل جو لوگوں کے مردہ قلوب کو ایمان کی روشنی سے زندہ کرتے تھے‘ اب نایاب ہو گئے ہیں۔ مزاروں کے ساتھ ملحقہ خانقاہوں میں صرف ایسے لوگ بیٹھے ہیں جویا تو اس لیے گدی نشین بن گئے کہ ان کے آباؤ اجداد میں سے کوئی فقیر کامل کے اعلیٰ منصب پر فائز تھا یا اس لیے کہ انہیں وراثت میں بغیر محنت و مشقت کے مسند تلقین و ارشاد مل گئی۔ یہ لوگ تو کاروبار کرتے ہیں مزاروں کا۔
مزاروں اور خانقاہوں پر اصل ولیوں کی بجائے گدی نشینوں کے قبضہ سے ہونے والی تباہی کی وجہ سے آج پورا معا شرہ روحانی طور پر اپاہج نظرآتاہے کیونکہ سکون تو روحانیت میں ہے۔ روحانیت کے بغیر انسانیت اور اخلاقیات نابینا ہے۔ گدی نشین کے لیے عموماً بڑے بیٹے کو ہی ُ چنا جاتاہے اور اس بات کا ہرگز خیال نہیں رکھا جاتا کہ وہ ظاہری اورباطنی علوم پر کتنی مہارت رکھتا ہے۔ لوگ اس کی پیروی آنکھیں بند کرکے کیے جاتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ فلاں گدی نشین پیروی کے لائق ہے بھی ٰٰٓٓیانہیں حالانکہ اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے خاص بندے ( فقرا کاملین ) شہرت سے دور بھاگتے ہیں ۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
’’ سروری قادری مرشد کبھی شہرت کاخواہاں نہیں ہوتا ‘‘۔ (سلطان العاشقین )
فقراءِ کاملین کو نہ سیاست سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے نہ حکمرانوں اور سربراہان سے ملنے کا کوئی شوق۔ وہ تو صر ف اللہ کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں ۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
’’ سلسلہ سروری قادری کے اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب کا حامل فقیر بھی عام انسانوں میں انہی کی طرح رہتا ہے اور اپنے مراتب مخلوق پر کبھی ظاہر نہیں کرتا۔‘‘ (سلطان العاشقین )
فقیر کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی مزار کا سجادہ نشین بھی ہو لیکن یہ لازم ہے کہ وہ خانقاہ بنا کر لوگوں کو پیغامِ حق دے اور اس خانقاہ میں طالبانِ مولیٰ کو اپنی نورانی صحبت کا فیض مہیا کرے، ان کا تزکیہ نفس کر کے اعلیٰ روحانی مراتب تک پہنچائے اور دینِ حق کی تبلیغ کے لیے مبلغ تیار کرے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا۔
اسی دائرے میں آج کے سجادہ نشین بھی آتے ہیں۔ بہت سے مشہور اولیا اللہ جیسا کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؓ ، حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ ، خوجہ معین الدین چشتی ؒ ، حضرت فریدالدین گنج شکر، حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ ، حضرت نظام الدین اولیاؒ ، حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ ، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ ، حضرت لال شہباز قلندر ؒ ، بری امام شاہ عبداللطیف کاظمی ؒ ، حضرت شاہ شمس تبریزؒ ، مولانا روم ؒ ، حضرت سخی سلطان باھوؒ ، حضرت سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ ، حضرت پیر محمد عبدالغفور شاہؒ ، حضرت پیر سیّد محمد بہادر علی شاہؒ ، حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز ؒ اور بہت سے اولیا کرام کسی مزار کے مجاور یا سجادہ نشین بن کر نہیں رہے بلکہ ان سب نے صرف اپنی نگاہِ کامل اور اپنی خانقاہوں کے ذریعے طالبانِ مولیٰ کو قرب و دیدارالٰہی کی منازل طے کروا کر اللہ تک پہنچایا۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ باطنی تربیت کے دوران شریعت پر کاربند رہنے کی سختی سے پابندی کرتے تھے، آپ ؒ فرماتے ہیں شریعت پر عمل کرنے سے دیدارِ الٰہی حاصل ہوتا ہے۔ (امیرالکونین )
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ اپنے دور کے فقیرِ کامل اور مرشد کامل تھے۔ آپ ؒ نے اپنی خانقاہ کے ذریعے بہت سے لوگوں کو طالبِ مولیٰ بنایا اور بہت سے لوگوں کو دیدار کی منزل تک پہنچایا ۔ آپ ؒ فقر اور شریعت کا تعلق ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں ’’ہم نے جوبھی مرتبہ حاصل کیا شریعت پر چل کر حاصل کیا۔ ‘‘
آپ ؒ کے روحانی وارث سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس موجودہ دور کے مرشد کامل اور فقیرِ کامل ہیں اور آپ مدظلہ الاقدس اپنی نگاہِ کامل سے مردہ قلوب کو زندگی بخشتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے لاہور میں سلسلہ سروری قادری کی خانقاہ کی بنیاد رکھی جہاں ہزاروں طالبانِ مولیٰ اپنی عشقِ الٰہی کی پیاس مٹانے آتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس فقر اور شریعت کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :
’’ فقر کی ابتدا بھی شریعت ہے اور انتہا بھی شریعت ہے اور تارکِ شریعت فقر کی خوشبو تک بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ ‘‘ ( شمس الفقرا )
جب کہ دوسری طرف ناقص لوگوں اور سجادہ نشینوں (جو فقرا بنے بیٹھے ہیں) نے یہ طریقہ اپنایا ہوا ہے کہ انہوں نے فقر میں کچھ ایسی چیزوں کا اضافہ کر دیا ہے جن کا فقر سے کوئی تعلق ہی نہیں مثلاً مالائیں، مختلف رنگوں کی انگوٹھیاں، ننگے پاؤں دھمال ڈالنا اور بعض کا حال تو یہ ہے کہ اپنے بدن کو صحیح سے ڈھانپتے بھی نہیں ہیں۔ ان سب چیزوں کا تعلق دین محمدی ؐ سے نہیں ہے، پھر فقر سے کیسے ہو سکتا ہے۔ ان سب خرافات کی وجہ سے ان لوگوں کو جو فقر کے خلاف ہیں‘ مزید زہر اگلنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ اولیا اللہ کی شان میں گستاخیاں کرتے پھرتے ہیں۔ ناقص مرشدوں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ جسے چاہتے ہیں اپنا خلیفہ بنا دیتے ہیں حالانکہ قدرت کا قانون ہے کہ اچھی طرح آزمائش کے بعد ہی کوئی مقام عطا کیا جاتا ہے۔ اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے فقرا کاملین بھی اپنے روحانی وارث اور خلیفۂ اصغر کی اچھی طرح تعلیم و تربیت کرتے ہیں اور انہیں ظاہری اور باطنی طور پر مختلف آزمائشوں سے گزارتے ہیں۔ جیسے مثل مشہور ہے کہ سونا آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے بالکل اسی طرح فقیرِ کامل اپنے مرید کو خوب اچھی طرح پرکھ کر اسے باطنی پاکیزگی اور بلندی عطا فرماتا ہے، پھر خلیفہ کا مرتبہ دیتا ہے۔ فقیرِ کامل اپنی نگاہِ کامل سے لوگوں کا تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کرتا ہے۔ انہیں وردو وظائف کے چکروں میں نہیں ڈالتا اور ایسی خا نقاہ کی بنیاد رکھتا ہے جو اس نفس پرست دنیا میں لوگوں کی تربیت کر کے قربِ الٰہی کی منزل تک پہنچائے۔ ایسی ہی خانقاہ کی بنیاد موجودہ دور کے مرشد کامل اکمل، امامِ مبین، سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے رکھی ہے۔ یہ خانقاہ سلسلہ سروری قادری اس دور کی واحد خانقاہ ہے جہاں وحدانیت کا درس دیا جاتا ہے، جہاں سے بہت سے طالبانِ مولیٰ نے اپنے باطن سنوار کر اعلیٰ مقامات حاصل کیے ہیں۔ آپ مدظلہ اقدس کی صحبت سے فیض یاب ہوکر بہت سے دنیا دار لوگ طالبِ مولیٰ بنے۔ تحریک دعوتِ فقر سب لوگوں کو دعوت عام دیتی ہے کہ اپنے نفس کے تزکیہ اور قلب کے تصفیہ کے لیے خانقاہ سلسلہ سروری قادری میں ضرور تشریف لائیں اور سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سے ذکر و تصور اسم اللہ ذات کا فیض حاصل کر کے اللہ کی معرفت حاصل کریں۔