فقر
فقر ( Faqr )
فقر کے لغوی معنی تو تنگدستی اور احتیاج کے ہیں لیکن عارفین کے نزدیک یہ وہ منزلِ حیات ہے جس کے متعلق سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔‘‘
فقر ایک خاص باطنی مرتبہ اور کمال ہے۔ اس کے مقابلہ میں باطن میں نہ کوئی مرتبہ ہے نہ کمال۔
فقر دراصل ان لوگوں کا ازلی نصیب ہے جو روزِ الست دنیا اور عقبیٰ کی تمام نعمتوں کو ٹھکرا کر اپنے مولیٰ کی طرف متوجہ رہے اور کائنات کی تمام لذتیں ان کے پائے استقامت میں لغزش پیدا نہ کر سکیں۔
فقر عشق ہے۔
فقر وہ راہ ہے جو بندے کو اللہ سے ملا دیتی ہے۔
فقر کا ظاہر خلق ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور فقر کا باطن لقا و وصالِ الٰہی ہے۔
فقر کی خوشبو کستوری کی طرح چھپ نہیں سکتی اور فقیر کے رگ و پے سے ظاہر ہوتی ہے جس کی وجہ سے مخلوق اس کی طرف دوڑی آتی ہے۔
فقر میں نسب کا کوئی کام نہیں۔
فقر کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں۔ فقر کو سمجھنا ہے تو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کو سمجھ لو‘ فقر کوئی مسئلہ نہ رہ جائے گا۔
فقر وہ مرتبہ ہے جہاں پر انسان ہر قسم کی حاجات سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اس کے مدِنظر رہتی ہے۔ اس لیے ہر حال میں تقدیرِ الٰہی سے موافقت اختیار کیے رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قرب کے سوا نہ وہ اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگتا ہے اور نہ اللہ کے غیر سے کچھ مطلب رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی منشا و رضا میں مداخلت کو گناہ سمجھتا ہے۔ اس لیے قرب و حضور کے سوا کچھ نہیں مانگتا۔
فقر ِاختیاری کے لیے دِل کو دنیا، خواہشاتِ دنیا سے بے رغبت کرنا ضروری ہے۔ فقراختیاری اور فقرِ اضطراری میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔فقر ِاضطراری یہ ہے کہ آدمی کسی خاص ذاتی مقصد کے لیے راہِ فقر اختیار کرے اور جب آزمائشوں کا بوجھ پڑے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے۔ فقر ِ اضطراری روح کی موت کا باعث بنتا ہے جبکہ فقر ِاختیاری سے روح کو زندگی حاصل ہوتی ہے۔ فقر اضطراری والا انسان ذلیل و خوار ہوتا ہے مگر فقر ِاختیاری انسان کو وہ شوکت و قوت عطا کرتا ہے کہ پوری کائنات اس کے تصرف میں دے دی جاتی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی فقر کو اپنا فخر قرار دیا ہے۔
جب تک مومن فقر کے مقام تک نہ پہنچے وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہٗ کی صفات کا حامل نہیں ہو سکتا۔
اگر جہانبانی حاصل کرنی ہے تو پہلے فقر کی دولت حاصل کرنا پڑے گی۔
فقر کی انتہا پر مومن اس وقت پہنچتا ہے جب وہ ’خودی کا محرم‘ ہو جاتا ہے اور خودی کیا ہے؟ خدائی!
فقر میں ہمت سے مراد یہ ہے کہ طالب ِ مولیٰ تمام رکاوٹوں (ظاہری و باطنی) کو توڑتا ہوا اللہ تک پہنچ جائے۔ مرد (طالبِ مولیٰ) کی ہمت پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔
فقر میں اللہ کا علم اور مشاہدہ اکٹھے حاصل ہوتے ہیں۔
فقر کے تین مراتب ہیں:
’لَآ اِلٰہَ‘، ’اِلَّا اللّٰہُ ‘، ’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہَ‘۔
فقر کی راہ میں ’بڑا اجر‘ سے مراد اللہ کی ذات ہے۔
فقر کا راستہ مشاہدے کا راستہ ہے اور حق الیقین تک صرف مشاہدے کے ذریعے ہی پہنچا جاسکتا ہے۔
اللہ پاک اگر بے حجاب ہے تو صرف فقر میں ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات اور ان کا چہرہ ہی فقر ہے۔
فقر کی راہ میں اگر کامیاب ہونا ہے تو اس کے نقش ِقدم پر چلنا چاہیے جو اس راہ میں کامیاب ہو چکا ہو۔
فقر ایک نکتہ ہے اور وہ نکتہ مرشد کامل ہے۔ جس کی نگاہ اس نکتہ پر مرکوز ہوگئی اس نے فقر پالیا۔
فقر رازوں کا سفر ہے۔ اس کا سالک انتہا پر خود صاحبِ فقر ہو جاتا ہے۔
فقر میں ہر طالب کے ساتھ الگ معاملہ ہوتا ہے جس کی بنیاد اس کی اپنی طلب اور یقین پر ہے۔
جو فقر کو ظاہری طور پر سمجھ جاتا ہے وہ باطنی طور پر فقر کو جلدی پالیتا ہے۔ اس لیے فقر کا ظاہری اور باطنی دونوں علم ضروری ہیں۔ علم کے بغیر فقر گمراہی ہے۔
فقر میں فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول، فنا فی اللہ ہیوَاعْتَصِمُوْ بِحَبْلِ اللّٰہِ(اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو) ہے۔ یہی وہ رسی ہے جسے مضبوطی سے پکڑ لینا چاہیے۔
راہِ فقر میں مومن کی نیت اعلیٰ سے اعلیٰ تر ہوتی جاتی ہے۔