Talib-e-Moula

طالبِ مولیٰ

5/5 - (1 vote)

طالبِ مولیٰ

طالبِ مولیٰ

دِل میں کسی خاص چیز کے حصول کی خواہش اور ارادہ کا نام طلب ہے اور حصولِ طلب کا جذبہ دِل میں ہی پیدا ہوتا ہے۔ جو انسان اپنے دِل میں اللہ تعالیٰ کی پہچان، دیدار اور معرفت کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کی خواہش کو ’طلبِ مولیٰ‘ اور اسے طالبِ مولیٰ، ارادت مند اور طالبِ حق کہتے ہیں، جسے عام طور پر سالک ، طالب یا مرید کے نام سے بھی موسوم کیا جا تا ہے۔ 
 حدیثِ قدسی ہے لَوْلَاکَ لِمَا خَلَقْتُ اَفْلَاکَ(محبوب اگر آپ(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)نہ ہوتے تو میں مخلوق کو پیدا نہ کرتا)۔ہر طالبِ مولیٰ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کا نور پوشیدہ ہے اس لیے طالبِ مولیٰ کی منزل حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی ذات ہے ۔
طالب میں طلب ہو اور مرشد عطا نہ کرے یہ نہیں ہو سکتا۔ ہر طالب کو جو بھی ملتا ہے وہ اس کی طلب کا عین ہوتا ہے۔
طالب پر ہر روز نئی تجلی پڑتی ہے۔ کبھی وہ ایک حالت میں ہوتا ہے کبھی دوسری۔
اللہ کے طالب پر آنے والی مصیبتیں اور بلائیں بھی رحمتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ اللہ کی محبت میں ان پر صبر کرتا ہے۔
اللہ کا طالب چکنے گھڑے کی طرح ہوتا ہے۔ اس پر جتنی بھی مصیبتیں یا بلائیں آئیں وہ اس راہ سے پیچھے نہیں ہٹتا۔
طالبِ مولیٰ کو دنیا میں سکون نہیں ملتا۔ دنیا میں سکون صرف طالبِ دنیا کو ملتا ہے۔
جب بندہ اللہ سے محبت کرتا ہے تو اللہ بھی اس سے محبت کرتا ہے اور اگر بندہ اللہ کو چھوڑ کر مخلوق سے محبت کرے تو مخلوق اس سے دھوکہ کرتی ہے، پھر مخلوق سے گلہ کیسا۔
طالبِ مولیٰ کسی غلط جگہ پر نہیں ٹھہر سکتا۔
طالبِ مولیٰ کو سورج مکھی کی طرح ہونا چاہیے ۔ جس طرح سورج مکھی کا رخ ہمیشہ سورج کی طرف ہوتا ہے اسی طرح طالب کا رخ ہمیشہ اپنے مرشد کی طرف ہونا چاہیے۔
وہی طالب فقر میں کامیاب ہو سکتا ہے جو مرشد کے کسی بھی عمل پر کبھی اعتراض نہ کرے اور ہمیشہ اس کی رضا کو سمجھنے کی کوشش کرے۔
طالبِ مولیٰ کی حالت ہر دم تغیر پذیر رہتی ہے کیونکہ وہ ہر آن اللہ کی تجلیات میں گھرا رہتا ہے اور اللہ کی جو تجلی ایک بار ہوتی ہے وہ کبھی دوبارہ نہیں ہوتی اس لیے طالبِ مولیٰ کبھی ایک حال میں نہیں رہتا۔
طالبِ مولیٰ جب اللہ کی رضا میں فنا ہوتے ہوتے مکمل فنا ہو جاتا ہے تو اللہ اسے وہی عطا کردیتا ہے جو ابتدا میں اس کی طلب ہوتی ہے۔
طالبِ مولیٰ کبھی مرشد سے خلافت کا طالب نہیں ہوتا۔ اللہ مل جائے تو ساری خلافتیں انسان کی مٹھی میں آجاتی ہیں۔
طالب مرشد سے کچھ نہیں مانگتا بلکہ وہ تو اپنا بھی سب کچھ مرشد کی رضا کے لیے مرشد کے قدموں میں رکھ دیتا ہے اور اللہ کو اس کی یہی ادا پسند آجاتی ہے۔ صحابہ کرامؓ کا بھی یہی طریق تھا۔ ایسے ہی طالب کو لایرید کہتے ہیں۔ جب مرشد کو ایسے طالب مل جائیں تو پھر فقر کا کام عروج پر پہنچ جاتا ہے۔
 جو اللہ کا ہو گیا اللہ اس کا ہو گیا۔
 اللہ بندے کی تربیت بندے کی فطرت کے مطابق کرتا ہے۔
 جو حق کی تلاش میں ہوتا ہے وہ ضرور حق تک پہنچتا ہے۔
 محبوبِ حقیقی کوئی تلاش نہیں کرتا جب تک وہ خود اسے اپنی تلاش نہ دے اگر تمہیں اس کی تلاش کی طلب عطا ہوئی ہے تو جان لو کہ اسے بھی تمہاری تلاش ہے۔
 کچھ لوگ اللہ کے در کے لیے ہی پیدا کیے جاتے ہیں، اللہ ان کو چن لیتا ہے۔ کبھی رلا کر، کبھی آزما کر، کبھی تکلیف دے کر، وہ اپنے خاص بندوں کو دوسروں سے الگ کر دیتا ہے۔ کچھ اس مقام تک چل کر خود آتے ہیں کچھ کو کھینچ کر لایا جاتا ہے بندے کی کیا مجال کہ اللہ کے حکم سے سرتابی کرے، اسے دکھ کی بھٹی سے گزار کر کندن بنا کر، اللہ اس کے دل کا مکین بن جاتا ہے اور جس کو ربّ مل جائے اسے سب کچھ مل گیا۔
 ’مرد‘ لفظ ایک صفت کا نام ہے نہ کہ ہم اس کو جسمانی خدوخال یا شکل و صورت سے جانیں۔ بلکہ ’مرد‘ ایک ’شان‘ اور ’صفت‘ ہے جو ہر عورت اور مرد میں پائی جاتی ہے۔ طلبِ حق تعالیٰ کا راستہ ’مرد‘ ہی اختیار کرتے اور طے کرتے ہیں اس لیے بہت سے مرد عورتیں ہیں اور بہت سی عورتیں مرد ہیں۔
 اللہ کا بندہ کسی میں نقص نہیں نکالتا اور نہ کسی کو برا سمجھتا ہے وہ صرف اپنے اندر دیکھتا ہے۔