Khanqah

خانقاہ سلسلہ سروری قادری

Rate this post

خانقاہ سلسلہ سروری قادری کا قیام

مسلمان دنیا میں جہاں بھی گئے وہاں اذان، نماز اور عبادات کی ادائیگی کے لیے مساجد تعمیر کیں اور مسلم معاشرہ میں عبادات کے لئے مساجد کی موجودگی لازم قرار پائی بلکہ مساجد ہی ایک مسلم معاشرے کی پہچان بنیں۔ اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ دنیا کے جس خطہ میں بھی دین ِ اسلام پہنچا اولیاکرام کی کاوشوں اور محبت ہی کی بدولت پہنچا۔ جب بھی کسی ولیٔ کامل نے کسی دور دراز علاقہ میں جا کر تبلیغِ اسلام کی خاطر ڈیرہ لگایا تو اُس ولیٔ کامل کے گرد بہت سے طالبانِ مولیٰ اکٹھے ہونے لگے۔ اِن طالبانِ مولیٰ کے تزکیۂ نفس اور روحانی ترقی کے لیے ایک خاص جگہ تشکیل دی جانے لگی تاکہ دور دراز سے آنے والے طالبانِ مولیٰ کو باطنی تربیت کے لئے صحبتِ مرشد میں رہنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع مل سکیں۔ اس خاص جگہ کا نام خانقاہ رکھا گیا۔

خانقاہ خواہ مسجد سے ملحقہ بنائی جائے یا علیحدہ، ا س کی اپنی انفرادی حیثیت ہوتی ہے کیونکہ صوفیا کرام نے تزکیۂ نفس کے لیے جن ریاضتوں کو لازم قرار دیا اس کے لیے مساجد مناسب نہیں۔ مساجد میں مسلمانوں کی ظاہری عبادات اور تعلیم کا نظام موجود ہوتا ہے اور خانقاہ میں طالبانِ مولیٰ مستقل قیام کرتے ہیں اور لنگر کا انتظام ہوتا ہے جبکہ مساجد میں یہ ممکن نہیں۔ خانقاہ میں مسلمانوں کو باطنی تربیت کے ذریعے مومن بنایا جاتا ہے۔ خانقاہ میں اولیا کاملین اپنی کامل نگاہ سے طالبانِ مولیٰ کا تزکیۂ نفس فرما کر ان کے دلوں میں ایمان داخل کرتے ہیں۔ خانقاہ میں ایک مسلمان کو اقرار باللسان سے تصدیق بالقلب تک کا سفر طے کرایا جاتا ہے تاکہ اسے مرتبہ احسان پر فائز کر کے بندۂ مومن بنایا جا سکے۔ 

 موجودہ دور کے انسانِ کامل، فقیر کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
خانقاہ میں صحبت ِ مرشد سے طالبانِ مولیٰ کا تزکیۂ نفس کیا جاتاہے۔
خانقاہ تبلیغِ دین کا مرکز بھی ہوتی ہے جہاں ہمہ وقت مبلغین موجود رہتے ہیں اورتبلیغ کے لئے ضروری مواد اوراشیا تیار کی جاتی ہیں۔ 

خانقاہ کی فضیلت 

خانقاہ کی فضیلت اس میں موجود فقیر ِکامل اورصادق طالبانِ مولیٰ کی بدولت ہے جو دن رات قربِ الٰہی کے حصول کی خاطر اسمِ اللہ ذات کے ذکرمیں مشغول رہتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق اللہ پاک قرآن پاک میں یوں کرتا ہے:
فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗلا یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۔لا رِجَالٌ لا لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِ صلا  یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُ۔ (سورۃ النور36,37)
ترجمہ: ان گھروں میں کہ جن کو بلند کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور جن میں اسمِ اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے، ان میں صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان ہوتی ہے۔ وہ مرد جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کے ذکر سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ دینے سے۔ وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں الٹ جائیں گے۔ 

شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ فرماتے ہیں:
اس آیت میں اصل اہمیت اہلِ ذکر کو حاصل ہے نہ کہ زمین اور مقام کو۔ چنانچہ جس جگہ اور جس مقام پر ذکر کرنے والے جمع ہوں گے وہی مقامات ایسے گھر مراد ہوں گے جن میں اللہ کے حکم سے دن رات اس کا ذکر بلند کیا جاتا ہے۔ (عوارف المعارف)

اس آیت میں فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ ( وہ خاص گھر ہیں جن کو اللہ نے ارفع کرنے کا حکم دیا ہے) میں   بُیُوْتٍ سے اگر  مساجدمراد لیا جائے توروا نہیں کیونکہ ’’بیت‘‘ کے معنی گھر کے ہیں۔ اللہ  تعالیٰ ’’مساجد‘‘ کا لفظ استعمال کر کے واضح کر سکتا تھا کہ یہ آیت صرف مساجد کے لیے ہے۔ مساجد ہمیشہ گھروں سے جدا ہوتی ہیں۔ یہاں گھر سے مراد وہ جگہ ہے جہاں ایک جیسی فکر اور نظریہ کے لوگ دن رات رہتے ہوں اور یہیں کھاتے پیتے اور دیگر ضروریاتِ زندگی سے استفادہ کرتے ہوں جبکہ مساجد صرف عبادات کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ یہاں گھروں سے مراد خانقاہیں ہیں جہاں دن رات طالبانِ مولیٰ رہتے ہیں اور خانقاہ طالبانِ مولیٰ کا گھر ہی ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں لفظ  تُرْفَعَ  استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے ’’بلند کرنا‘‘ جیسا کہ ارشاد ہوا ہے ’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ‘‘ کہ ’’ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا ذکر بلند کر دیا‘‘ یعنی ہر زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کا ذکر بلند ہے اور بلند تر ہوتا رہے گا۔ لہٰذا اس آیت میں تُرْفَعَ سے مراد عمارت کا بلند کرنا نہیں بلکہ خانقاہ بنانے کی مبارک سنت کو ہر زمانہ میں رائج کرنا ہے ۔

سورۃ النور کی اس مبارک آیت نمبر 36 کا اگلا حصہ ہے کہ 
وَ یُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ لا یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ لا
ترجمہ: جن (خانقاہوں) میں اسمِ  اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے، ان میں صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان ہوتی ہے۔ 

اس آیتِ مبارکہ میں جن گھروں کا ذکر ہے ان کے لیے دائمی اسمِ  اللہ ذات کا ذکر بھی شرط ہے اور یہ صرف خانقاہ ہی ہو سکتی ہے کیونکہ خانقاہ میں ایک لمحہ بھی پورے دن اور رات میں ایسا نہیں گزرتا جب سلطان الاذکار ’’ھُو‘‘ کا ذکر ِ پاس انفاس نہ ہو۔ اللہ کے دیدار میں محو طالبانِ مولیٰ ھُوھُو کی صدا ہر وقت، ہر آن بلند کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی اس بات کی مضبوط دلیل ہے کہ اس آیت میں  بُیُوْتٍ     کا لفظ مساجد نہیں بلکہ خانقاہ کے لیے استعمال ہوا ہے کہ خانقاہ میں ہر وقت یعنی صبح ہو یا شام، ذکرِ اسمِ  اللہ ذات جار ی رہتا ہے جبکہ مساجد میں ذکر اور نماز کے مخصوص اوقات ہیں اور رات کو تو مسجدوں میں تالے لگ جاتے ہیں۔ خانقاہ ہر وقت ہر آنے والے کے لیے کھلی رہتی ہے، خواہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھنے والا ہو یاکوئی غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔جبکہ دورِ حاضر میں اکثر مساجد فرقوں کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں ۔

نہ ہی ان گھروں سے مدرسے مراد لیا جا سکتا ہے کیونکہ مدرسوں کی بنیاد بھی فرقوں پر ہے اور مدرسوں میں صرف دین کے ظاہری علوم فقہ ،تفسیر اور حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے نہ کہ ذکر کے ذریعے باطنی تزکیہ کیا جاتا ہے۔

  سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
مدارس میں علم کے ذریعے اللہ کو جانا جاتا ہے جبکہ خانقاہ میں عشق سے اللہ کو پہچانا جاتا ہے۔

 

خانقاہ کی بنیاد

خانقاہی نظام کی بنیاد بھی آقائے دو جہان سرورِ کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  نے اصحابِ صفہ کو صفہَّ کے چبوترہ پر اکٹھا کر کے رکھی تھی۔ 
سورۃ الکہف کی آیت نمبر28 میں اللہ تعالیٰ اصحابِ صفہ کے متعلق فرماتا ہے:
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ 
ترجمہ: اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ان لوگوں کے ساتھ رہا کریں جو رات دن اپنے ربّ کی بارگاہ میں دیدارِ الٰہی کی التجا کرتے ہیں۔

جب آپ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم   کے اردگرد ان اصحاب نے اکٹھا ہونا شروع کر دیا جن کی غذا ہی دیدارِ الٰہی تھی یعنی جو طالبانِ مولیٰ تھے اور ان کی طلب صرف اور صرف آقا پاک  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی پوری فرما سکتے تھے، تو قرآن میں یہ حکم ہوگیا کہ اے انسانِ کامل! آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایسے طالبانِ مولیٰ کے ساتھ رہا کریں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا چہرہ دیکھنے کے طالب ہیں۔ طالبانِ مولیٰ کی طلبِ شدید کو مدِنظر رکھتے ہوئے پہلی خانقاہ کی بنیاد پڑی جس کا نام صفہ تھا۔یہ خانقاہ بہت سے ایسے صحابہ کرامؓ کا گھر بھی تھی جنہیں اسلام قبول کرنے کی وجہ سے اپناوطن اور گھر بار چھوڑنا پڑا اور جن کے پاس رہنے کی کوئی اور جگہ نہ تھی جیسے کہ حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت سیدّنا بلال حبشیؓ۔ اس کے علاوہ مدینہ میں آنے والے تمام مہمان صحابہ کرامؓ کو بھی صفہ کی خانقاہ میں ٹھہرایا جاتا تھا۔ 

حضرت طلحہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
’’جب کوئی شخص مدینۃ الرسولؐ میں باہر سے آتا اور اس کا یہاں کوئی شناسا ہوتا تو اس کے ہاں قیام کرتا اور اگر کوئی جان پہچان نہ ہوتی تو وہ صفہ پر آجاتا اور یہاں قیام کرتا۔ میں بھی اِن لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اہل ِ صفہ کے ساتھ قیام کیا تھا۔‘‘  (طبرانی 8086)

ان صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کو دینِ اسلام میں بہت اہمیت حاصل ہے جنہوں نے اس تربیت گاہ یعنی خانقاہِ اوّل ’’صفہَّ‘‘ سے تربیت حاصل کی اور اصحابِ صفہَّ کے نام سے موسوم ہوئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے یہی وہ پہلی درس گاہ تھی جہاں ان کے قلوب میں ایمان داخل کیا گیا اور پھر اسلام پوری دنیا میں پھیلا۔ اصحابِ صفہ کی شان اتنی بلند ہے کہ قرآنِ پاک میں ان کا ذکر ملتا ہے اور پھر آقا پاک  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  نے بھی اہلِ صفہَّ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا ’’اے اصحابِ صفہَّ! تمہیں بشارت ہو کہ تم میں سے جو کوئی ان خوبیوں پر قائم رہے گا جس پر تم لوگ قائم ہو اور اس حالت پر خوش رہے گا تو وہ یقینا قیامت کے دن میرا رفیق ہو گا۔‘‘ (عوارف المعارف)

اہلِ صفہَّ کو فضیلت اور اللہ تعالیٰ کی رضا آقا پاک  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کے قرب سے ملی جو انہوں نے دنیا سے دور ہو کر اور صفہ کے چبوترے پر رہائش اختیار کر کے حاصل کیا۔ اسی قرب سے باطنی خوبیاں اور اعلیٰ ترین اوصاف حاصل کیے اور یہی وہ اوصاف ہیں جن کی بدولت آخرت میں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رفاقت نصیب ہوتی ہے۔

اہلِ صفہَّ کی فضیلت اس بنا پر بھی ہے کہ مسلسل اپنے مرشد آقا پاک  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں رہنے کی بدولت انہیں کثیر احادیث سننے اور روایت کرنے کا موقع ملا۔ چنانچہ سب سے زیادہ احادیث روایت کرنے والے اصحاب حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت عبداللہ ابن عمرؓ، حضرت ابو سعید خدریؓ اور حضرت ابو ذر غفاریؓ بھی اہل ِ صفہ میں سے تھے۔

تمام اہلِ صفہ ان غریب صحابہ کرامؓ پر مشتمل تھے جنہوں نے خود کو صرف دین کے لئے وقف کر رکھا تھا اس لیے ان کا کوئی ذریعہ معاش نہ تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دیگر صحابہ کرامؓ ان کی کفالت کیا کرتے تھے۔

اہلِ اللہ اور درویشوں کا خطاب ’’صوفی‘‘ بھی اہلِ صفہَّ کی نسبت، مشابہت اور ان کا طرزِ عمل اختیار کرنے کی بنا پر ہے۔ انہی صوفیا کرام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس سنت کو قائم رکھا کہ خالصتاًـ اللہ کی رضا کی خاطر دنیا کو ٹھکرا نے اور قربِ الٰہی کے لئے خلوت اختیار کرنے والوں کے لئے کسی ٹھکانے کا انتظام کیا جائے۔ اسی سنت مبارکہ کی پیروی میں صوفیا کرام نے اپنے معتقدین کے لئے خانقاہیں قائم کیں جو ان صوفیا کی تمام تر سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتی ہیں۔ روحانی سلاسل ہمیشہ جاری و ساری رہے ہیں اور صادق طالبانِ مولیٰ اپنی روح کی پیاس بجھانے اور باطن کی آراستگی کے لیے ہمیشہ اولیا کرام کی بارگاہوں کا رخ کرتے رہے اور ان سے فیضیاب ہوتے رہے ہیں۔ اس کے برعکس علمائے ظاہر نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ان تمام سنتوں جن سے روحانیت اور دین ِ اسلام کے باطنی پہلوؤں کو فروغ ملتا ہے، کو ترک کرنے کے ساتھ ساتھ خانقاہی نظام کو بھی خیرباد کہہ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مساجد اور مدرسوں کی بہتات ہونے کے باوجود مسلمان باطنی لحاظ سے بالکل کھوکھلے ہو چکے ہیں اور ان کی عبادات روح سے خالی ہیں۔

 موجودہ دور کے طالبانِ مولیٰ کو بھی فقر، رضائے الٰہی اور اعلیٰ ظاہری و باطنی اوصاف اُسی وقت نصیب ہوتے ہیں جب وہ کسی ولیٔ کامل کی خانقاہ میں حاضر ہوں اور اس ولیٔ کامل کی صحبت میں رہ کر اپنا تزکیۂ نفس کروائیں۔

آپ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کے بعد آپ کی اس مبارک سنت کی پیروی میں ہر دور میں اولیا اللہ نے طالبانِ مولیٰ کی تربیت کے لیے خانقاہیں قائم کیں۔ زمانہ اس بات کا شاہد ہے کہ سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی خانقاہ میں ہزاروں کا مجمع لگا رہتا اور کئی ہزار طالبانِ مولیٰ قلم دوات اٹھائے آپؓ کی گفتگو قلم بند کرنے میں مصروف رہتے۔ خانقاہ بنانے اور طالبانِ مولیٰ کی باطنی تربیت کرنے کی اس مبارک سنتِ رسول  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے مزید مستحکم فرمایا اور یہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سلسلہ در سلسلہ سیدّ نجم الدین برہان پوری رحمتہ اللہ علیہ سے ہوتی ہوئی سیدّ عبدالرحمن جیلانی دہلوی رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچی۔ پھر سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ  رحمتہ اللہ علیہ نے اس سنتِ عظیم کو مزید نکھارا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خانقاہ سے فیض یاب طالبانِ مولیٰ ساری دنیا میں پھیل گئے اور اسمِ اعظم کا راز کھلا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ کے محرم راز سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی  رحمتہ اللہ علیہ نے احمد پور شرقیہ میں خانقاہ تعمیر فرمائی اور سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ  رحمتہ اللہ علیہ کو فیض کی دولت سے مالا مال فرما کر مڈرجبانہ روانہ کر دیا۔ حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ  رحمتہ اللہ علیہ کی خانقاہ سے شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہ کاظمی المشہدی رحمتہ اللہ علیہ نے فیض حاصل کیا اور اڈا قاسم آباد سے ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر خانقاہ کی بنیاد ڈالی۔ الغرض آج تک آقا پاک  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ مبارک سنت جاری ہے جو اصحابِ صفہ سے شروع ہوئی اور سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ سے ہوتی ہوئی سلطان العاشقین حضرت سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی قائم کردہ خانقاہوں، خانقاہ سروری قادری اور خانقاہ سلطان العاشقین کی صورت میں جاری و ساری ہے۔ 

خانقاہ نشینوں کی صفات اور آدابِ خانقاہی

 سورۃ النور کی آیت نمبر 37 میں ارشادِ مبارک ہے:
رِجَالٌ لا لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِ 
ترجمہ: وہ مرد جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کے ذکر سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ دینے سے۔
اس آیتِ مبارکہ میں مردوں سے مراد طالبانِ مولیٰ ہیں جس کی دلالت درج ذیل مشہور و معروف حدیثِ قدسی کرتی ہے: 
طَالِبُ الدُّنْیَا مُخَنَّثٌ وَ طَالِبُ الْعُقْبٰی مُؤَنَّثٌ وَ طَالِبُ الْمَوْلٰی مُذَکَّرٌ   
ترجمہ:  دنیا کا طالب مخنثّ (ہیجڑہ) ہے، عقبیٰ کا طالب مؤنث (عورت) ہے اور طالبِ مولیٰ مذکر (مرد) ہے۔ 
مندرجہ بالا آیتِ مبارکہ میں ان طالبانِ مولیٰ کا ذکر ہے جو اپنی خانقاہوں میں ا سمِ اللہ ذات کے ذکر، دائمی نماز اور زکوٰۃ (اصل زکوٰۃ صوفیا کے نزدیک اپنی زندگی کی ہر سانس ذکرِ اللہ کے نام کر دینا اور اپنی ذات کو مکمل اللہ کے حوالے کر دینا ہے) ادا کر رہے ہیں اور دنیا کی کوئی چیز کوئی سودا خواہ وہ کتنا ہی منافع بخش کیوں نہ ہو، ایسے طالبانِ مولیٰ کو چنداں نہیں بھاتا نہ ہی انہیں ان کے محبوب حق تعالیٰ کے ذکر سے غافل کرتا ہے۔ وہ دائمی نماز اور ذکرِ اسمِ اللہ ذات میں اس قدر محو ہیں کہ وہ خانقاہ سے باہر کی دنیا کی ہر چیز سے کٹ کر صرف اللہ کی طرف راغب ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاذْکُرِ اْسمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً ۔ (سورۃ المزمل۔8 )
ترجمہ: اور اپنے ربّ کے نام (اسمِ اللہ) کا ذکر کرو اور سب سے الگ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ 

ذکر اور تصور کا باہمی رشتہ ایک تانے بانے کی مانند ہے اور ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا دماغ ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے، کسی نہ کسی چیز کے خیال میں محو رہتا ہے، ایک لمحہ بھی خالی نہیں رہ سکتا۔ یہ ذکر کی قسم ہے۔ جن چیزوں کے متعلق ہمارا دماغ سوچتا ہے ان کی شکلیں ہمارے سامنے آجاتی ہیں، اگر بیوی بچوں کے متعلق سوچتا ہے تو وہ آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں اور گھر کے بارے میں سوچتا ہے تو گھرسامنے آجاتا ہے، اِسے’’ تصور ‘‘کہتے ہیں۔ ذکر و تصور کا یہ سلسلہ مسلسل اور لگاتار جاری رہتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دنیا، دنیا کے لوگوں اور دنیا کی اشیا سے ہماری محبت اور رشتہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ یہی تعلق اور لگاؤ ذکر اور تصور ہے۔ صوفیا کرامؒ ذکر اور تصور کے اس دنیاوی رُخ کو رُوحانی رُخ کی طرف موڑ کر واصل باللہ ہونے کا طریقہ ذِکر اور تصورِ اسمِ اللہ ذات کی صورت میں بتاتے ہیں۔ سورۃ مزمل کی آیت   وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً۔(ترجمہ: اور سب سے الگ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ) میں تصور کی طرف اشارہ ہے۔
یعنی طالبانِ مولیٰ خانقاہوں میں اسمِ اللہ ذات کا ذکر کرتے ہیں اور ہر طرف سے ٹوٹ کر اسم اللہ  ذات کے تصور میں محو رہتے ہیں۔ 

حضرت شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’جس طرح خانقاہِ اوّل ’صفہ‘ کے خانقاہ نشین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے بالکل ان کے مشابہ ہر دور میں خانقاہ نشین ہوتے ہیں اور بالکل وہی اعمال دہراتے ہیں جو اعمال اصحابِ صفہَّ رضی اللہ عنہم کے تھے۔‘‘  (عوارف المعارف)

یوں اصحابِ صفہَّ اور موجودہ اور آئندہ خانقاہ نشینوں میں مشابہت پائی جاتی ہے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وہ ہر وقت اپنی خانقاہ میں رہتے ہیں اور اس کی خبر گیری کرتے ہیں گویا خانقاہ ان کا گھر ہے اور وہی ان کا خیمہ و خرگاہ ہے۔ جس طرح ہر قوم کے افراد کے گھر ہوتے ہیں اسی طرح صوفیا کے گھر خانقاہیں ہیں۔ پس اس صورت میں وہ اہلِ صفہَّ سے مشابہہ ہیں۔ (عوارف المعارف۔ باب 14)

آپ رحمتہ اللہ علیہ مشابہت کی مزید وجہ اہلِ صفہ اور خانقاہ نشینوں کے کردار میں یکسانیت کو قرار دیتے ہیں:
اہلِ صفہَّ نے دنیا کے جھمیلوں سے قطع تعلق کر لیا تھا، نہ وہ کھیتی باڑی کرتے تھے اور نہ وہ جانور پالتے تھے۔ پس اِن کے دلوں سے کینہ مٹ گیا اور حسد رخصت ہو گیا۔ یہی حال اہلِ خانقاہ کا ہے کہ وہ ظاہر اور باطن میں یک رنگ ہیں۔ باہمی الفت اور محبت کے اعتبار سے ان میں یکسانیت ہے اور اس پر سب جمع ہیں۔ ایک ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی باہمی گفتگو میں ایک ہی رنگ ہے، اختلاف نہیں ہے یعنی اکٹھے گفتگو (ایک ہی موضوع یعنی معرفت ِالٰہی پر گفتگو کرتے ہیں ۔) کرتے اور اکٹھے کھاتے پیتے ہیں اور اس اجتماعی زندگی کی برکت سے بخوبی واقف ہیں۔ (عوارف المعارف۔ باب 14)

وہ تمام عادات و اطوار جو صفہ کے چبوترہ پر رہنے کی بدولت اصحابِ صفہَّ میں تھے وہی عادات و اطوار بعد کے ادوار کے خانقاہ نشینوں میں بھی واضح نظر آتے ہیں۔ وہی آداب ہیں خانقاہ کے اور وہی اصول و ضوابط ہیں خانقاہ نشینوں کے جو آج سے چودہ سو سال قبل پہلی خانقاہ ’’صفہَّ‘‘ کے تھے۔ اہلِ صفہَّ بھی نیک کاموں اور تقویٰ میں تعاون کرتے تھے اور دینی مصالح پر اپنی جان و مال سے مدد کرنے کے لیے مل جل کر کام کرتے رہتے تھے، پس وہ اللہ تعالیٰ کے فضلِ عظیم کے امیدوار بن گئے۔ اسی طرح خانقاہ نشینوں کی طلب ایک ہی ہوتی ہے یعنی اللہ کی معرفت، قرب اور دیدار، پس وہ اپنے اتحاد اور متحد ارادوں کے باعث ایک جسم کی طرح ہوتے ہیں۔ دوسری جماعتوں، مسلکوں اور فرقوں میں یہ بات نہیں ہے، ان میں ایسا اتحاد نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہی مومنین کے متعلق فرمایا:
کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ۔ (سورۃ الصف۔4)
ترجمہ: وہ (مومنین) ایسے متحد و متفق اور اس قدر مضبوط ہیں جیسے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔ 

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہٗ  سے روایت ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  نے فرمایا ’’بے شک مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر کوئی عضو مبتلائے درد ہوتا ہے تو تمام جسم میں تکلیف ہونے لگتی ہے اسی طرح اگر کسی مومن کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو تمام مومنین اس کی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔‘‘
ان مومنوں کی محبت کسی بھی دنیاوی یا ذاتی غرض کی بنا پر نہیں ہوتی بلکہ محض رضائے الٰہی کے لیے ہوتی ہے۔  (مسلم 6586، السلسلۃ الصحیحہ 2660)

حضرت عمر بن خطابؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کے کچھ بندے ایسے ہوں گے جو نبی ہوں گے نہ شہدا۔ روزِ قیامت اللہ کے نزدیک ان کے رتبہ کی وجہ سے انبیا و شہدا ان پر رشک کریں گے۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کی ’’ہمیں بتائیں وہ کونسے لوگ ہیں؟‘‘ فرمایاـ ’’یہ وہ لوگ ہیں جو صرف اللہ کے لیے آپس میں محبت کرتے ہیں، ان کے درمیان نہ تو رشتہ داری ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی مال کا لین دین۔ بخدا ان کے چہرے سراسر نور ہوں گے اور وہ نور کے منبروں پر بیٹھے ہوں گے، انہیں کوئی خوف نہیں ہو گا جب لوگ خوف زدہ ہوں گے اور نہ وہ غمگین ہوں گے جب دوسرے لوگ غمزدہ ہوں گے۔ پھر یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:
اَلَآ اِ نَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ (سورۃ یونس۔62)
ترجمہ: خبردار! بیشک اولیا اللہ کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔ـ (مسند احمد بن حنبل 23294، مشکوٰۃ المصابیح 5012)

شیخ شہاب الدین سہروردیؒ لکھتے ہیں:
تمام صوفیا کے لیے یہ لازمی اور ضروری وظیفہ ہے کہ وہ آپس میں محبت کی بھرپور حفاظت کریں۔ دلوں میں پراگندگی پیدا نہ ہونے دیں، دلی اور روحانی اتحاد سے اس پراگندگی کا ازالہ کر دیں، اس لیے کہ وہ سب ایک روحانی رشتہ میں منسلک ہیں اور تالیفِ الٰہی کے رابطہ سے باہم جڑے ہوئے ہیں اور مشاہدۂ قلوب کے ساتھ وابستہ ہیں بلکہ خانقاہوں میں ان کی موجودگی ہی اس لیے ہے کہ تزکیۂ قلب اور آراستگیٔ نفس حاصل ہو اور اسی بنا پر ان کے مابین ربط و ضبط کا سلسلہ قائم ہے (کسی دنیوی غرض سے ایسا نہیں ہے)۔ اس صورت میں ان کے لیے باہمی خیر سگالی اور محبت و الفت اور بھی زیادہ ضروری ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’مومن (لوگوں سے) مانوس ہوتا ہے اور (لوگ اس سے) مانوس ہوتے ہیں۔ اس آدمی میں کوئی خیر نہیں جو نہ خود کسی سے مانوس ہوتا ہے نہ کوئی اس سے مانوس ہوتا ہے اور لوگوں میں بہتر وہ ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے زیادہ مفید ہو۔‘‘ (السلسلۃ الصحیحہ 2860)

شیخ ابو زرعہ طاہر بن یوسف رحمتہ اللہ علیہ اپنے مشائخ کی اسناد کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
’’ارواح ایک لشکر کی طرح ہیں جو ایک جگہ جمع ہوگئی ہیں۔ جان پہچان والی ارواح آپس میں مانوس ہو جاتی ہیں اور جو ایک دوسرے سے متعارف نہیں وہ الگ تھلگ رہتی ہیں۔‘‘ (ابوداؤد 4834)

پس یہی حال اہلِ خانقاہ کا ہے کہ جب یہ لوگ ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں تو ان کے دل اور ان کے باطن بھی ایک دوسرے سے جڑُ جاتے ہیں اور ان کے نفوس ایک دوسرے کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ پھر وہ ایک دوسرے کے مال کے نگران ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے ’’مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے‘‘۔ پس جب وہ کسی ساتھی میں تفرقہ اور پراگندگیٔ قلب کا ظہور پاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کسی صوفی کے دل میں دوسرے کے خلاف خیالات پیدا ہو رہے ہیں تو اسے ناپسند کرنے لگتے ہیں اس لیے کہ تفرقہ کا ظہور نفسانی خواہش کا نتیجہ ہوتا ہے اور غلبۂ نفس سے وقت کا زیاں ہوتا ہے۔ چنانچہ جب کبھی کسی درویش میں یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے اور وہ نفس کا شکار ہو جاتا ہے تو یہ لوگ اس کو پہچان لیتے ہیں اور جان لیتے ہیں کہ یہ شخص اب جمعیت کے دائرے سے خارج ہوگیا۔ یہ لوگ فیصلہ صادر کر دیتے ہیں کہ اس نے حکمِ وصیت کو ضائع کیا، ضبطِ نفس میں سستی برتی اور حسنِ رعایتِ اوقات کو ترک کر دیا۔ اس وقت اس کے ساتھ ناراضگی کا برتاؤ  کر کے اس کو پھر دائرہ جمعیت میں کھینچ کر لایا جاتا ہے۔

جس طرح ان کا ظاہر ربط و ضبط سے آراستہ ہے اسی طرح ان کے باطن میں یہ ربط و الفت قائم ہے۔ یہ وہ خصوصیت ہے جومومنوں کے سوا اور کسی گروہ میں نہیں پائی جاتی۔ (عوارف المعارف)

خانقاہ نشینوں کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ آپس میں مل جل کر اور محبت سے رہیں کیونکہ دل میں حسد، کینہ اور بغض رکھنا روح کو میلا اور روحانی سفرکو روک دیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی صوفی اپنے نفس سے مغلوب ہو کر اپنے کسی بھائی سے جھگڑ بیٹھے تو دوسرے بھائی کو چاہیے کہ اپنے بھائی کا مقابلہ نفس سے نہ کرے بلکہ نفس کا مقابلہ قلب سے کرے کیونکہ جب نفس کا مقابلہ قلب سے کیا جاتا ہے تو برائی اور شر کا مادہ زائل ہو جاتا ہے۔ یعنی اپنے بھائی کی بات کو دل پر مت لے اور اُس کی اِس حرکت کو صاف دلی سے معاف کر دے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۔ وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا (سورۃ حٰمٓ السجدہ34,35)
ترجمہ: تم اچھے طریقے سے پیش آئو کہ وہ شخص جس کے ساتھ تمہاری عداوت ہے تمہارا گہرا دوست بن جائے اور یہ طریقہ صرف وہ استعمال کر سکتے ہیں جو صابر ہیں۔

طالب پر لازم ہے کہ خانقاہ میں اپنا تمام وقت صرف طلب ِ مولیٰ، ذکرِاسمِاللہ  ذات میں یا مرشد کی طرف سے دئیے گئے فرائض کی انجام دہی میں صرَف کرے نہ کہ اِدھر اُدھر کے فضول کاموں میں۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اپنے وقت کو ناجائز استعمال میں لائے گا کیونکہ ’’وقت‘‘ بھی اللہ کی امانت ہے جسے طلبِ مولیٰ میں خرچ کرنا تھا۔ آخرت میں اس ’’وقت‘‘ کی امانت کے متعلق بھی سوال جواب کیا جائے گا۔ تبلیغِ دین کے لیے مرشد کی طرف سے دی گئی ذ مہ د اریوں کی ادائیگی میں ایک دوسرے کی معاونت کرنا بھی انتہائی قابلِ تحسین عمل ہے۔

خانقاہ نشینوں کے لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ اپنے ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِن کی کسی حرکت سے ہمسایوں کا سکون تباہ و برباد ہو جائے۔ خانقاہ میں فضول دنیاوی باتوں اور شور و غوغا سے پرہیز کرنا چاہیے کہ دنیا اور اس کی باتیں طالبِ مولیٰ پر حرام ہیں۔ 

خانقاہ کا دارومدار اُس پاک انسانِ کامل (مرشد ِ کامل) کی ذات پر ہوتا ہے جس کے گرد تمام طالبانِ مولیٰ اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس بات کا سب سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ جب مرشد کریم خانقاہ میں تشریف فرما ہوں تو تمام خانقاہ نشینوں اور عارضی قیام کرنے والوں کو مرشد کریم کی بارگاہ میں بیٹھنا چاہیے کیونکہ مرشد کی صحبت ہی انسان کے قلب کو صاف اور نفس کو پاک کرتی ہے۔ اسی لیے تمام بھائیوں کو چاہیے کہ اپنے ذاتی تمام ضروری اور غیر ضروری کاموں کو چھوڑ کر مرشد کی بارگاہ میں چلے جائیں۔

خانقاہ میں قیام کرنے والوں کو عاجزی سے کام لینا چاہیے کیونکہ نیت میں جتنا خلوص اور عاجزی ہوگی اتنا ہی زیادہ مرشد کی نگاہِ کامل سے قلب کی صفائی ہوگی۔ تمام طالبانِ مولیٰ کو اس بات کا بھی خصوصی خیال رکھنا چاہیے کہ مرشد کریم کی بے ادبی نہ ہو۔ مرشد کی بارگاہ میں خاموشی سے بیٹھنا چاہیے اور ان کی گفتگو کو نہایت ادب و اعتقاد کے ساتھ فیض کے حصول کی نیت سے سننا چاہیے۔ اگر مرشد کریم سے کوئی بات کرنی پڑے یا سوال پوچھنا ہو تو نہایت ہی آہستہ آواز اور ادب کے دائرہ میں رہ کر پوچھنا چاہیے۔ مرشد کریم کی طرف پیٹھ نہیں کرنا چاہیے۔

خانقاہ میں قیام کے بعد اگر کوئی بھائی واپسی کا ارادہ کرے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مرشد کریم سے اجازت لیے بغیر واپس نہ جائے۔ مرشد کریم کی خانقاہ میں رہنا اور پھر اجازت کے بغیر واپسی کا ارادہ کر لینا ادب کے دائرہ کے خلاف ہے۔ خانقاہ کی صفائی کا خیال رکھنا بھی ہر خانقاہ نشین کی ذمہ داری ہے۔ عارضی قیام کرنے والے بھائیوں کو چاہیے کہ خانقاہ نشین بھائیوں کی اجازت کے بغیر خانقاہ سے باہر نہ جائیں۔

خانقاہ کی حدود میں غیر شرعی تمام کاموں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ سگریٹ نوشی، تمباکو نوشی اور نشہ آور اشیا کے استعمال سے مکمل احتیاط برتنی چاہیے۔ نہ ہی خانقاہ میں ٹی وی، فلم یا موسیقی کی اجازت ہوتی ہے کیونکہ شریعت سے باہر کچھ بھی نہیں۔ آقا پاک  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کی شریعت کی حفاظت ہی فقر ہے۔

اللہ کے محبوب ولیٔ کامل کی ہمہ وقت موجودگی کے باعث خانقاہ کی فضا میں فیض ہی فیض ہوتا ہے۔ ہر وقت جاری رہنے والے ذکرِ الٰہی کی بدولت خانقاہ میں نور کی برسات ہوتی رہتی ہے جس سے ان خانقاہ نشینوں کے قلوب جگمگاتے رہتے ہیں۔ پس یہ بابرکت جگہ نہ صرف اس میں رہنے والوں بلکہ اس کے آس پاس کے تمام علاقے کے لیے بھی رحمت کا باعث ہے، حتیٰ کہ اس کے باہر سے گزرنے والا اگر ہاتھ اٹھا کر دعا بھی کر دے تو اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نیک مسلمانوں کے ذریعے اس کے گھر والوں اور پڑوسیوں کے سو آدمیوں کی مصیبتوں کو دور کرتا ہے۔ـــــ‘‘

گزشتہ ادوار میں خانقاہ کے لیے ’رباط ‘ کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ شیخ شہاب الدین سہروردیؒ اس کی وجہ بیان کرتے ہیں ـ’’رباط کا لفظ ان سرحدوں کے لیے بولا جانے لگا جو مسلمانوں اور کفار کے ملک کے بیچ میں فرق کرتی ہیں اور قوم یا محافظ جن کی حفاظت کرتے ہیں۔ لہٰذا جس طرح سرحد کی حفاظت کرنے والا مجاہد اپنے ملک کی حفاظت کرتا ہے اسی طرح جو خانقاہ نشین ہے وہ رباط میں رہتا ہے اور وہاں ذکرِالٰہی اور اللہ کی اطاعت میں مشغول ہے، وہ بھی دعاؤں اور اطاعت گزاری سے بندوں اور شہروں سے بلاؤں کو دفع کرتا ہے۔‘‘

لہٰذا خانقاہ کی اہمیت اور اس کے آداب کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہر مومن کا فرض ہے۔ اگر کوئی مسلمان سے مومن تک کا سفر کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی مرشد ِ کامل کی صحبت کی خاطر اُس کی خانقاہ کو تلاش کرے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ہدایت کے طلب گار کو ہدایت کا راستہ ضرور دکھا دیتا ہے۔ 

سلطان العاشقین اور مسند ِتلقین و ارشاد

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے اپنے مرشد کے وصال کے بعد جب مسند ِتلقین و ارشاد سنبھالی تو اپنے گھر سلطان العاشقین ہاؤس کو فقر کی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ دوسری منزل پر مردوں سے اور پہلی منزل پر خواتین سے ملاقات فرماتے اور انہیں فقر کی تعلیمات سے آگاہ کرتے۔ اسی ترتیب سے محافل منعقد ہوا کرتیں۔ یہ سلسلہ 22 اکتوبر 2009ء (3 ذیقعد 1430ھ) بروز جمعرات تک جاری رہا۔

خانقاہ سروری قادری
(23اکتوبر 2009   –  جنوری 2024)  

 سلسلہ سروری قادری کے تمام مشائخ کی طرح سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے بھی 23اکتوبر 2009 (4 ذیقعد 1430ھ) بروز جمعتہ المبارک خانقاہ سروری قادری کی بنیاد رکھی ۔ یہ خانقاہ پوری دنیا میں فیضِ فقر کو پھیلانے کا ذریعہ بنی۔ اس خانقاہ کے قیام کا مقصد طالبانِ مولیٰ کی تربیت اور تزکیۂ نفس اسی طریق پر کرنا تھا جس طریق پر صوفیا کرام کی خانقاہوں میں راہِ فقر کے طالبوں اور مریدوں کی تربیت اور تزکیۂ نفس ہوتا رہا ہے۔ لاہور کے باہر سے بھی مریدین آکر اس خانقاہ میں مقیم ہوتے اور چند دِن دنیا سے خلوت نشین ہوکر اپنے مرشد کی صحبت سے فیض یاب ہوتے۔ خانقاہ کے دروازے فرقہ و طبقہ کے امتیاز کے بغیر ہر خاص و عام، ہر مکتبہ فکر اور ہر فرقے کے لیے دن رات کھلے رہتے۔
اس خانقاہ میں طالبوں کے تزکیہ نفس کے علاوہ فقر کے فیض کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے دن رات مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی زیرِ نگرانی کام ہوتا۔
دعوتِ فقر ایک تحریک ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور سے مسلسل کسی نہ کسی شکل اور صورت میں جاری رہی ہے۔ موجودہ دور میں اس تحریک اور دعوت کو آگے بڑھانے کے لیے موجودہ دور کی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق ایک جماعت یا تنظیم کی ضرورت تھی۔ اس لیے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس نے اپنے مرشد پاک سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے عرس کے موقع پر 23اکتوبر 2009ء (4ذیقعد 1430ھ) بروز جمعتہ المبارک خانقاہ سلسلہ سروری قادری کے افتتاح کے ساتھ ساتھ ’’تحریک دعوتِ فقر‘‘ کی بھی بنیاد رکھی تاکہ دعوتِ فقر کو ایک منظم تحریک کی صورت میں آگے بڑھایا جاسکے۔ اس تحریک کا دفتر خانقاہ سروری قادری میں ہی قائم کیا گیا اور اس کی تمام سرگرمیوں کا مرکز بھی خانقاہ سروری قادری ہی رہی۔

تحریک دعوتِ فقر ایک رجسٹرڈ اور غیر سرکاری و غیر سیاسی جماعت ہے جس کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہیں۔ تحریک دعوتِ فقر کے قیام کا مقصد دنیا بھر میں لوگوں کو راہِ فقر کی دعوت دینا ہے تاکہ وہ اللہ کا قرب حاصل کر سکیں اور وہ روحانی پاکیزگی حاصل کر سکیں جولقائے الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔

تحریک دعوتِ فقر کا مرکزی دفتر خانقاہ سروری قادری میں ہے اور تحریک دعوتِ فقر کے تمام شعبہ جات کے دفاتر بھی خانقاہ سروری قادری میں ہیں۔ (تحریک دعوتِ فقر اور شعبہ جات کا تفصیل سے ذکر باب 12 ’’فقر کے فروغ کے لیے تحریک دعوتِ فقر اور مختلف اداروں کا قیام‘‘میں ہو چکا ہے۔)

مردوں کی تمام روحانی محافل خانقاہ سروری قادری میں منعقد ہوتی تھیں جبکہ خواتین کی آپ مدظلہ الاقدس کے گھر میں ہی منعقد ہوتی تھیں۔ ایک وقت ایسا بھی آ گیا کہ مردوں کے لیے خانقاہ سروری قادری میں جگہ کم پڑنے لگی اور باہر گلیوں میں ان کے بیٹھنے کا انتظام کرنا پڑ گیا اور دوسری طرف گھر میں بھی خواتین کے لیے جگہ کم پڑنے لگی۔

فقر کا یہ آفتاب تیزی سے روشن ہو رہا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں طالبانِ مولیٰ قرب و دیدارِ الٰہی کی نعمت حاصل کرنے کے لیے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بارگاہ کا رخ کر رہے تھے اس لیے روز بروز آپ مدظلہ الاقدس کے مریدین و معتقدین میں اضافہ ہو رہا تھا۔ مزید برآں تحریک دعوتِ فقر کی سرگرمیوں میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ لہٰذا یہ خانقاہ اب تحریک کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے ناکافی تھی۔ یہ بہت ضروری ہو گیا تھا کہ ایک وسیع خانقاہ ہو جہاں طالبانِ حق صحبتِ مرشد سے عشقِ حقیقی کی پیاس بجھا سکیں اور فیضِ فقر کو عام کرنے کے لیے زیادہ بہتر طریقے سے کام کیا جا سکے۔ اسی سلسلہ میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے حکمِ الٰہی سے ایک نئی اور وسیع خانقاہ کے قیام کا آغاز کیا جس میں شاندار مسجد، لائبریری، اسلامک سینٹر، کمپیوٹر لیب، لنگر خانہ اور دور دراز سے آنے والے طالبانِ مولیٰ کے لیے مہمان خانہ اور رہائش گاہ شامل ہو۔ اس خانقاہ کے اغراض و مقاصد طالبانِ حق کو معرفتِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بہرہ مند کرنا ہے تا کہ اسلام کی اصل حقیقت اور فقرِ محمدی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود فخر فرمایا، کی تبلیغ و اشاعت کی  جا سکے۔
23 جمادی الثانی 1445 ھ بروز ہفتہ 6 جنوری 2024 کو خانقاہ سروری قادری کو خانقاہ سلطان العاشقین میں منتقل کردیا گیا ہے اور تحریک دعوت فقر کے دفاتر اور شعبہ جات دفاتر بھی خانقاہ سلطان العاشقین  منتقل ہوگے ہیں.  یوں ایک دور اختتام پذیر ہوا۔

 خانقاہ  سلطان العاشقین کا قیام اور مسجد زہراؓ   

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے مسجدِزہراؓ اور خانقاہ سلطان العاشقین کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا۔ اس سلسلہ میں آپ مدظلہ الاقدس نے یکم دسمبر 2017ء (12 ربیع الاوّل 1439ھ) بروز جمعتہ المبارک میلادِ مصطفی ؐکی بابرکت محفل میں مرکزِفقر خانقاہ سلطان العاشقین اور مسجدِزہراؓ کی تعمیر کا اعلان فرمایا اور مریدین اور معتقدین سے اس تعمیر میں بڑھ چڑھ کر مالی و بدنی تعاون کی اپیل کی۔

دو سال کی سرتوڑ کوششوں کے بعد اتنی رقم جمع ہو گئی کہ خانقاہ اور مسجد کے لیے زمین خریدی جا سکے۔ اس دوران سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے مناسب زمین کی تلاش جاری رکھی۔ اگر کوئی زمین مناسب جگہ پر تھی تو انتہائی مہنگی تھی اور اگر سستی زمین ملتی تو جگہ مناسب نہ ہوتی۔ بالآخر جولائی 2019ء میں سندر اڈا لاہور سے 5 کلومیٹر کے فاصلہ پر دریائے راوی کے کنارے رنگیل پور شریف میں مناسب داموں پر اچھی زمین مل گئی جو 12 جولائی 2019ء (9ذیقعد 1440ھ) بروز جمعتہ المبارک خرید لی گئی اور مرکزِفقر مسجدِزہراؓ اور خانقاہ سلطان العاشقین کا سنگِ بنیاد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے یکم اگست 2020ء (10 ذوالحجہ1441ھ) بروز ہفتہ عید الاضحی کے مبارک دن رکھا۔

خانقاہ سلطان العاشقین کے حصہ محافل کی تکمیل 30 اگست 2020ء (10 محرم الحرام 1442ھ) بروز اتوار مکمل ہو گئی اور اس دن سے اتوار کی محفل نورِ مصطفیؐ اور مرشد کریم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سے ملاقات کے ساتھ ساتھ دوسری تمام محافل بھی یہاں منتقل کر دی گئیں جیسا کہ خانقاہ سروری قادری کے تذکرہ میں بیان کیا گیا ہے کہ وہاں جگہ بہت تنگ ہو گئی تھی۔ 30 اگست 2020ء (10 محرم الحرام 1442ھ) کی محفل سے تمام مریدین (مرد و خواتین) کی محافل اسی خانقاہ میں منعقد ہونے لگیں۔ خواتین کے لیے پردہ کا خاص انتظام کیا جاتا ہے۔ ان محافل میں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اپنے مریدین کو اپنی پرُنور صحبت کے فیض سے نوازتے ہیں اور ان کے مسائل سنتے اور ان کے لیے دعا فرماتے ہیں۔ محافل کے اختتام پر شاندار لنگر کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ محفل نورِ مصطفیؐ ہر اتوار کو نمازِ ظہر سے پہلے منعقد ہوتی ہے جبکہ نماز کی ادائیگی کے بعد لنگر تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تحریک دعوتِ فقر کے زیر اہتمام اور سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی زیرِ صدارت سالانہ تمام روحانی محافل کا انعقاد بھی اسی خانقاہ میں ہوتا ہے۔ (تفصیلات کے لیے کتاب سلطان العاشقین کے باب 13’’روحانی محافل‘‘ کا مطالعہ فرمائیں)

خانقاہ میں طالبانِ مولیٰ کے لیے رہائش کا انتظام بھی ہے۔ دور دراز علاقوں کے طالبانِ مولیٰ جنہوں نے اپنی زندگی سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحبت میں وقف کر دی ہے، خانقاہ میں رہائش پذیر ہیں اور مختلف فرائض سرانجام دیتے ہیں۔

 مسجد میں قرآن گیلری بھی موجود ہے اور مسجد سے ملحقہ آپ مدظلہ الاقدس کا مزار مبارک بھی تعمیر کیا گیا ہے جہاں آپ مدفون ہوں گے

23 جمادی الثانی 1445 ھ بروز ہفتہ 6 جنوری 2024 کو خانقاہ سروری قادری کو خانقاہ سلطان العاشقین میں منتقل کردیا گیا ہے اور تحریک دعوت فقر کے دفاتر اور شعبہ جات دفاتر بھی خانقاہ سلطان العاشقین  منتقل ہوگے ہیں.  یوں ایک دور اختتام پذیر ہوا۔

Spread the love