حقیقتِ موت | Haqeeqat e Maut
حقیقتِ موت
تحریر: محترمہ عنبرین مغیث سروری قادری
موت زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے جس کا سامنا ہر ذی روح کو کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات کو انسان کے لیے مسخر کر دیا لیکن موت و حیات کے اسرار آج بھی اس پر منکشف نہ ہو سکے۔ اگرچہ اس عالم ِاجسام میں وارد ہونا زندگی اور اس عالم سے رخصت ہونا اصطلاحاً ’’موت‘‘ کہلاتا ہے لیکن انسانی شعور میں ہمیشہ سے یہ بات موجود رہی ہے کہ اس طبعی زندگی سے پہلے اور بعد بھی حیات کا وجود ہے اور ’’زندگی‘‘ اور ’’موت‘‘ انسان کی کامل حیات کے صرف دو مقامات ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ انسانی حیات کے اس دورانیے کو جو وہ عالم اجسام میں گزارتا ہے‘ یوں بیان کرتا ہے۔
اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا یَوْمًا (طٰہٰ۔ 104)
ترجمہ: تم تو (دنیا میں) ایک دن کے سوا ٹھہرے ہی نہیں ہو۔
یعنی زمان و مکان میں مقید حیات‘ انسانی زندگی کا قلیل ترین حصہ ہے۔ ابتدائے حیات کے زمانے کا اندازہ لگانا تو انسانی شعور کے لیے ناممکن ہے البتہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور اولیا کے قلوب پر انسانی حیات کی ابتدا کے حالات ضرور القا فرمائے ہیں جو سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچے ہیں۔
زمانہ ازل میں اللہ پاک نے جب اپنی بے عیب و جمیل ذات کو نورِ محمدی کے آئینہ میں دیکھا تو اس سراپا حسن کو مجسم صورت میں د یکھنے کی خواہش اس کائنات اور اس کی مخلوقات کی زندگی کا آغاز بنی۔ اس نورِ جمیل سے اللہ تعالیٰ نے تمام عالم کی ارواح کو ’’کن‘‘ کہہ کر تخلیق فرمایا اور عالمِ لاھوت میں انہیں اپنے سامنے آراستہ کیا۔ تمام ارواح اللہ تعالیٰ کے حسن ِبے مثال و لامحدود کو دیکھ کر دنگ رہ گئیں اور حسن ِمطلق کی تعریف و ذکر میں محو ہو گئیں۔ یہی ذکر اور دیدارِ الٰہی اُس عالم میں جملہ ارواح کا رزق بنا اور وہ اس رزق پر پلنے لگیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا ’’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ‘‘ ’’کیا میں تمہارا ربّ (پالنے والا) نہیں؟‘‘ (یعنی کیا تم میرے حسن و جمال کے جلوؤں‘ دیدار اور میرے ذکر پر نہیں پل رہے؟) اس وقت تمام ارواح نفس کی آلائشوں سے پاک اور نورِ الٰہی سے منور تھیں۔ سب نے یک زبان ہو کر جواب دیا ’’قَالُوْا بَلٰی‘‘ ہاں کیوں نہیں؟ (ہاں اے ہمارے رب ہم تیرے حسن و جمال کے جلوؤ ں‘ تیرے دیدار اور ذکر پر نہیں پل رہے تو اور کہاں پل رہے ہیں)۔ ارواح کو اپنے دیدار اور ذکر کی روزی سے مامون و توانا کرنے کے بعد اللہ پاک نے اپنے عشق کی بھاری امانت انہیں سونپنا چاہی۔ تمام عالم ِارواح میں سے روحِ انسانی نے اس امانت کو قبول کر لیا۔ ’’ہم نے بارِ امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا۔ سب نے اس کے اٹھانے سے عاجزی ظاہر کی لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بے شک وہ اپنے نفس کے لیے ظالم اور نادان ہے۔‘‘ (الاحزاب: 72)
اس وقت تو تمام انسانی ارواح حسن ِ مطلق کے دیدار سے سرشار اور نورِ الٰہی میں غرق روحِ قدسی کے مقام پر تھیں اس لیے عشق کی امانت کو باآسانی قبول کر لیا۔ ان کے اس جذبۂ عشق کی صداقت کو پرکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے حسن کے جلوؤں کو نفس کے پردوں میں لپیٹ کر انسانی قلب میں رکھ دیا اور پھر مختلف مراحل و مقامات سے گزار کر اسے عشق اور امانت داری کے امتحان کے لیے تیار کیا۔ روحِ قدسی کو عالم ِ لاھوت سے عالم ِجبروت میں بھیجا جہاں اسے جبروتی لباس سے آراستہ کیا گیا یہاں وہ روحِ سلطانی کہلائی پھر عالم ِملکوت میں اسے ملکوتی لباس پہنایا گیا اور اس کا نام روحِ سیرانی رکھا گیا اور پھر اسے عالم ِناسوت کی طرف بھیجا گیا جہاں اس لطیف روح کے لیے عنصری جامہ تیار کیا گیا جو ہوا، مٹی، پانی اور آگ سے بنا ہوا تھا تاکہ روح اس عالم ِناسوت میں جل نہ پائے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنا سنوار کر اس درالامتحان میں اتار دیا۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ ٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ (سورۃ التین 4 – 5)
ترجمہ: تحقیق ہم نے انسان کو بہترین ترکیب سے تخلیق کیا۔ پھر اسے پست سے پست حالت کی طرف پھیر دیا۔
انسان کی طبعی زندگی کا آغاز ہوا جس کا اصل مقصد تمام بشری پردوں کو چیر کر اپنے ربّ کی پہچان حاصل کرنا بنا۔ جیسا کہ حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَترجمہ: میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں اس لیے میں نے مخلوق کو تخلیق کیا۔
اللہ پرکھنا چاہتا تھا کہ میرے عشق کی امانت جو انسان کے سینے میں ہی موجود ہے‘ کیا انسان اس کی حفاظت کر پاتا ہے یا نہیں؟ جس عشق کا دم انسان نے عالم ِلاھوت میں بھرا تھا‘ کیا وہ اب بھی اس عشق پر قائم ہے؟ جس دیدار پر وہ لامکان میں پل رہا تھا کیا اب بھی اس کی خواہش رکھتا ہے؟ اس عشق کی پرکھ کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسانی شعور سے لامکان کی تمام یادیں سلب کر لیں البتہ یاد دہانی کے لیے انبیا اور اولیا بھیجتا رہا۔ عالم ِبشریت اس عشق کی آزمائش کے لیے امتحان گاہ بنا‘ زمان و مکان کی قید اس امتحان گاہ کے اصول و ضوابط بنے، قرآن و سنت‘ نصاب‘ تقدیر اس کے سوالات اور انسان کے اعمال و نیت اس کے جواب بنے۔ اللہ کی پہچان اس آزمائش کا مقصد، نفس اور اس کی خواہشات اس مقصد کی کامیابی کی راہ میں حائل رکاوٹیں۔ حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اس تمام صورت حال کو یوں بیان فرماتے ہیں:
کن فیکون جدوں فرمایا، اساں وِی کولے ہاسے ھُو
ہکے ذات ربّ دِی آہی، ہکے جگ وِچ ڈھنڈیاسے ھُو
ہکے لامکان مکان اساڈا، ہکے آن بتاں وِچ پھاسے ھُو
نفس پلیت پلیتی کیتی باھُوؒ‘ کوئی اصل پلیت تاں ناسے ھُو
انسان اس دنیا میں آکر اور اس کی رعنائیوں میں کھو کر اپنے مقصد ِ حیات کو بھول جاتا ہے۔ اس کی روح دنیاوی کثافتوں سے آلودہ ہو جاتی ہے لیکن اپنی حقیقت کی تلاش اسے بے چین کیے رکھتی ہے۔ یہی بے چینی اس میں جستجو کا عنصر ابھارتی ہے۔ اگر اس کا نفس اس کی جستجو کا رخ دنیا کی طرف موڑ دے تو وہ دنیا کے حصول کی تگ و دو میں لگ کر حقیقت سے مزید دور ہو جاتا ہے‘ نہ ہی اس کی خواہشوں کا اختتام ہوتا ہے اور نہ ہی روح سکون پاتی ہے۔ اگر اللہ کی مہربانی سے اس کی جستجو کا رخ خالق ِ کائنات کی طرف مڑ جائے تو وہ اپنے ربّ کی رضا کے حصول اور اُسے پالینے کی جدوجہد میں مصروف ہو جاتا ہے۔ تقدیر اس پر مہربان ہو تو خدا تک پہنچنے کی خواہش انسان کو کسی مرشد ِ کامل کے در تک لے جاتی ہے جہاں ذکر و تصور اسم اللہ ذات کے ذریعے روح کو پہلے کی طرح رزق ملنے لگتا ہے۔ جب اس رزق اور مرشد کی توجہ سے وہ بیدار ہوتی ہے تو اپنے اصل وطن عالمِ لاھوت کی یادیں بھی ذہن میں ابھرنے لگتی ہیں۔ وطن واپسی‘ محبوبِ حقیقی کے دیدار اور وصال کی خواہش عشق کے روپ میں اس قدر شدت اختیار کرتی ہے کہ انسانی روح بڑی سے بڑی آزمائش سے گزر کر عروج کی منازل طے کرتے ہوئے عالم ِناسوت سے ملکوت‘ ملکوت سے جبروت اور پھر عالم ِلاھوت تک واپسی کا سفر مرشد کامل کی رہنمائی میں طے کرتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان اور خدا کے درمیان حائل نفس کے تمام حجاب ہٹا دئیے جاتے ہیں اور وہ اپنے اندر ہی اپنے ربّ کی پہچان حاصل کرتا ہے۔ اب اس کی روح اپنے اصل مقام یعنی روحِ قدسی کے مقام تک پہنچ جاتی ہے اور وہ اس دارالامتحان سے واپس اپنے اصل وطن کامیاب لوٹتی ہے۔ اپنے ربّ تک اس کامیاب واپسی کو ہی صوفیا کرام نے حقیقتاً ’’موت‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور ’’مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘ مرنے سے پہلے مر جاؤ کی اصطلاح کے ذریعے بیان کیا ہے۔
جسمانی موت سے قبل ہی جسم اور زمان و مکان کی قید سے آزادی حاصل کرلینے والی روحِ قدسی اپنے اس دنیا میں آمد کے مقصد کو پاچکی ہے اور ’’مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا ‘‘ کے مرتبے پر فائز ہو کر اپنے ربّ تک لوٹ چکی ہے۔ ’’اِنَّا لِلّٰہِ واِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن‘‘ بے شک سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ یہ اللہ کی طرف لوٹنا جسم کی موت کے ذریعے نہیں بلکہ نفس کی موت کے ذریعے ممکن ہوا۔ اقبال نے اپنے اس شعر میں موت کے اسی روپ کو بیان کیا ہے۔
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
اس دارالامان (دنیا) کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہر انسان کو اپنے مقصد ِ حیات (اللہ کی پہچان) کو پورا کرنے کے لیے ایک مقررہ وقت (طبعی عمر) مہیا کیا جاتا ہے۔ جس کے پورا ہونے پر کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں آزمائش ختم ہو جاتی ہے۔ امتحان کے اختتام پر اس عالم ِخلق میں زیر استعمال رہنے والا عنصری جسم اس کی روح سے جدا کر دیا جاتا ہے۔ جسم سے روح کو علیحدہ کرنے کا یہ عمل انسان کی طبعی موت کہلاتا ہے۔ اس مقام پر بشری جسم کو اس کے اصل ماخذ یعنی ہوا، مٹی، پانی یا آگ کے سپرد کر دیا جاتا ہے جبکہ روح اپنے ماخذ یعنی اللہ کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ ہر روح خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے انسان کی ہو‘ اس پر سے تمام حجاب ہٹا دئیے جاتے ہیں۔ جسم کی موت کے ساتھ ہی روح جاگ اٹھتی ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے ’’تمام انسان حالت ِ خواب میں ہیں جب وہ مرتے ہیں تو بیدار ہو جاتے ہیں۔‘‘ بقول اقبال
موت تجدید ِ مذاق زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
اگرچہ طبعی موت کا مطلب روح اور جسم کا ایک دوسرے سے جدا ہونا ہے تاہم اس وقت بھی حقیقی موت صرف اور صرف نفس پر ہی وارد ہوتی ہے جس کے واقع ہوتے ہی انسان تمام بشری حجاب توڑ کر اللہ کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ (آلِ عمران۔185)
ترجمہ: ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہر ’’انسان‘‘ ’’ہر جسم‘‘ یا ’’ہر روح‘‘ کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ انسان‘ جسم اور روح کا مرکب ہے۔ جسم روح کے بغیر بے جان ہے اور بے جان اشیا پر موت وارد نہیں ہوتی جبکہ روح امر ِ ربی ہے جس کی موت ممکن نہیں۔ چنانچہ موت کے عمل کا اطلاق صرف نفس پر ہوتا ہے۔ جو نفس طبعی عمر کے دوران ہی موت کا ذائقہ چکھ چکا ہو‘ اس کے لیے طبعی موت بشریت سے نجات کے سوا کچھ نہیں۔ وہ اپنے ربّ سے وصال کی جانب یہ آخری قدم بھی بصد خوشی و شوق بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اسے یوں خوش آمدید کہتا ہے ’’اے نفسِ مطمئنہ! اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ۔ ایسی حالت میں کہ وہ تجھ سے راضی ہے اور تو اس سے راضی ہے۔ پس میرے بندگانِ خاص کے حلقے میں شامل اور میری جنت قرب میں داخل ہوجا۔‘‘ (الفجر 27-30)
نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمانِ غیور
موت کیا شے ہے فقط عالم معنی کا سفر
(اقبال)
اللہ کی رضا اور امانت ِعشق صحیح سلامت لوٹانے کا سکون ہی صالحین کے لیے جنت کی مثل ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بشریت سے بھی اس قدر راضی ہوتا ہے کہ ان کے عنصری اجسام بھی ہمیشہ منوں مٹی تلے ترو تازہ رہتے ہیں۔
جو انسان طبعی عمر کے دوران مقصد ِ حیات کو بھول چکا تھا وہ اپنے ربّ کی طرف ناکام و پشیمان لوٹتا ہے۔ خدا کی ناراضگی کا خوف اس کے دامن گیر ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ اس وقت موت جسم کے ساتھ ساتھ اس کے نفس پر بھی وارد ہو چکی ہوتی ہے اس لیے بالآخر وہ بھی اپنے ربّ کے روبرو پہنچ ہی جاتا ہے۔ جلد یا بدیر حقیقت کی پہچان اسے بھی حاصل ہو ہی جاتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ مرنے والے کے حق میں فرماتا ہے:
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلَکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ
ترجمہ:اور ہم اس (مرنے والے)سے تمہاری نسبت زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم (ہمیں ) دیکھتے نہیں۔
مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں ریاض قادری شرح فصوص الحکم میں فرماتے ہیں ’’موت کے بعد میت کے دل سے حجاب‘ غفلت اور وہم اٹھا دیا جاتا ہے اور اس کے دل کی بصیرت تیز ہوجاتی ہے۔ پھر ایک میت کی دوسری میت سے کوئی تشخیص نہیں یعنی قرب میں سعید کو شقی پر خصوصیت نہیں دی گئی۔ میت خواہ سعید ہو یا شقی دونوں ہی رازِ حقیقت کو پالیتے ہیں۔‘‘
الغرض موت کوئی خوفناک حادثہ یا بُرا انجام نہیں بلکہ صرف انسان کی اپنے اصل وطن واپسی کا نام ہے۔
٭ موت نام ہے رازِ حقیقت کو پالینے کا
٭ موت آزمائش کا اختتام اور دارالامتحان سے گھر لوٹنے کا نام ہے۔
٭ موت محبوبِ حقیقی سے وصال کا نام ہے۔
٭ موت پھر سے اسی نورِ الٰہی سے مدہوش اور منور ہو جانے کا نام ہے جو ہمارے وجود کا باعث بنا۔
٭ اگر زندگی انسا ن کی ابتدا اور موت انتہا ہے تو انتہا ابتدا کی طرف لوٹ جانا ہے۔ یعنی موت درحقیقت حیاتِ ابدی کی طرف لوٹ جانے کا نام ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
٭ ’’مومن کے لیے موت سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
٭ ’’دنیا میں بہتر زہد موت کی یاد ہے اور بہتر عبادت تفکر ہے۔‘‘
اگرچہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیماری، تنگدستی اور آزمائش کے خوف سے موت کی آرزو کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے وصال کی خواہش میں دنیا پر موت کو ترجیح دینا بھی سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے۔ وصال سے پانچ یوم قبل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’خدا نے اپنے بندے کو اختیار دیا کہ وہ چاہے تو دنیا و مافیہا کو قبول کرے اور چاہے تو وہ کچھ قبول کر لے جو خدا کی بارگاہ میں ہے تو اس بندے نے وہی کچھ انتخاب کر لیا جو اس کے لیے خدا کی بارگاہ میں ہے۔‘‘ وصال سے چند لمحے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا:
اَللّٰہُ الرَّفِیْقُ الْاَعْلٰی ۔
ترجمہ: اللہ سب سے بہتر رفیق ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ کی طرف لوٹتے وقت اللہ تعالیٰ سے نیک گمان کی نصیحت کی ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ’’تم میں سے جب کسی کو موت آئے تو وہ اللہ سے حسن ِظن رکھتا ہو۔‘‘ (مسلم شریف)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
٭ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایمانداروں سے دریافت کرے گا کیا تم مجھ سے ملاقات چاہتے تھے؟ لوگ کہیں گے ہاں یا اللہ! ربّ کریم فرمائے گا کس لیے؟ لوگ کہیں گے خداوند! ہم تیری رحمت، مغفرت اور عفو کے طالب تھے۔ تب ربّ کریم فرمائے گا’’اب تو تمہاری مغفرت مجھ پر واجب ہوگئی۔‘‘ (شرح السنہ)
حضرت عقبہ بن مسلم سے روایت ہے ’’بندہ کی خصلتوں میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یہ خصلت پسند ہے کہ وہ اس سے ملاقات کوپسند کرے۔‘‘ (ابن مبارک)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے تو اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو شخص لقائے الٰہی کو پسند نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند نہیں فرماتا۔‘‘ اس موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہٗ یا امہات المومنین میں سے کسی نے فرمایا ’’ہم تو موت کو بُرا ہی سمجھتے تھے‘‘ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا نہیں ایسا نہیں ہے جب بندئہ مومن کی موت آتی ہے اور اس کو رضائے ربّ اور اس کی طرف بندے کی عزت افزائی کی بشارت ملتی ہے تو اس بشارت سے زیادہ محبوب چیز اور کوئی نہیں ہوتی جو اس کو عنقریب ملنے والی ہوتی ہے۔ اس لیے بندہ لقائے ربّ کی تمنا کرتا ہے اور اللہ بھی بندہ کی ملاقات پسند کرتا ہے۔‘‘ (بخاری شریف)
اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو پسند کرنے والے مومنین کے لیے اللہ تعالیٰ جان کنی کی کیفیت بھی سہل بنا دیتا ہے‘ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’مومن لوگوں کی روحیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاکیزہ اور خوش و خرم ہوں۔ (ان سے فرشتے روح قبض کرنے کے وقت ہی کہہ دیتے ہیں) تم پر سلامتی ہو تم جنت میں داخل ہو جاؤ ان (اعمالِ صالحہ) کے سبب جو تم کیا کرتے تھے۔ (النحل۔ 32)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’جب مسلمان کی موت قریب ہوتی ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑا لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں اے روح! تو راضی خوشی حالت میں اور اس حالت میں کہ اللہ بھی تجھ سے راضی ہے‘ نکل۔ تو اللہ اور اس کے رزق سے اپنے پروردگار کی طرف نکل جو ناراض اور غصے نہیں ہے۔ پھر روح عمدہ خوشبو اور مشک کی طرح خارج ہوتی ہے۔ فرشتے اسے اٹھا کر آسمان کے دروازے پر لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کتنی اچھی خوشبو ہے جو زمین سے آئی ہے۔‘‘ (نسائی شریف)
پس ایک مومن کو موت کی تیاری یوں کرنی چاہیے جیسے ایک دلہن اپنے محبوب سے وصال کی تیاری کرتی ہے۔ نہ صرف نیک اعمال کے ظاہری گہنوں سے تن کو سجانا چاہیے بلکہ محبوب کی محبت اور اس سے ملاقات کی خواہش سے قلب کو معمور کرنا چاہیے۔ اپنے دل میں جھانکیے اگر موت کا خوف اور دنیا میں لمبا عرصہ رہنے کی خواہش ہے تو ضرور کہیں اللہ کی محبت میں کمی ہے اور اگر موت کا انتظار اور اللہ سے ملاقات کی خواہش ہے تو یہ خواہش اور انتظام مبارک ہو کیونکہ یقینا پھر آپ کا ربّ بھی آپ سے ملاقات کا منتظر ہے۔