Arifana-Kalam

عارفانہ کلام سلطان العاشقین سلطان محمد نجیب الرحمٰن

Rate this post

عارفانہ کلام سلطان العاشقین سلطان محمد نجیب الرحمٰن

عارفا نہ کلام

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس نے عشقِ حقیقی،عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور دیگر موضوعات پر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے شاعری کو بھی ذریعہ بنایا۔ آپ مدظلہ الاقدس کی رباعیات اور دیگر نظمیں قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہیں:

جنت سے اعلیٰ اور ہر لمحہ انوار کی برسات ہے حضورؐ کی قبرِ انور پر
رحمت کا نزول اور ملائکہ کا درود و سلام ہے حضورؐ کی قبرِ انور پر
نجیبؔ جیسا عاصی و خطاکار نہیں ہے حضورؐ اس زمانے میں
بس ہے یہ التجا کہ سر رکھوں قدموں میں اور جاں نکلے حضورؐ کی قبرِ انور پر

*****

اسمِ اللہ ذات

اسمِ اللہ ذات   ہی   دیتا  ہے  انسان  کو    اصل   حیات 
اسی سے سینہ ہستی سے خواہشاتِ غیر اللہ کی ممات
اپنے رُخ سے اٹھاتا ہے یہ حجاب اس وقت
عطا کرے جب اِسے صاحبِ مسمیّٰ اسمِ ذات

عرفانِ نفس

انسان کو اپنی پہچان سے ملتی ہے خدا کی پہچان
اسمِ اللہ دیتا ہے انسان کو اپنی پہچان
جس نے نہ پہچانا اپنی ذات کو اسمِ اللہ ذات سے
ناکامی و نامرادی اور سیاہ بختی ہے اس کی پہچان

 

تلاشِ مرشد

بستی بستی ڈھونڈا، نگر نگر تلاش کیا 
دلبر نہ ملا کہیں، سفر دور دراز کیا
جب کریم نے کیا فیصلہ محرمِ دِل بنانے کا
تو صاحب نے خود اپنے دیوانے کو تلاش کیا

عشق

عشق کی ابتدا ہے دیدار و صحبت یار کی
عشق کا حاصل ہے محبت یار کی
عشق کی حقیقت، عشق ہے بس عشق
عشق کی انتہا ہے ذات یار کی

فنا فی اللہ بقا باللہ

میرے جسم کے لوُں لوُں میں سما گیا یار میرا
میں کھو گیا اور آگیا یار میرا
میں ظاہر میں تلاش کرتا رہا جسے
میرا قالب ہی بن گیا یار میرا

*******

نجیبؔ نہ رہا باقی، یار کی ذات میں فنا ہو گیا
اپنے غیر سمجھ نہ سکے، کہتے ہیں کہ کیا سے کیا ہو گیا
سنو! نجیب تو کب کا مر چکا اے دوستو
یار سے جب یار مِلا، میں میں نہ رہا وہ ہو گیا

جب آپ مد ظلہ الاقدس اپنے مرشد کے وصال کے بعد پہلی بار اپنے مرشد کے مزار پر حاضر ہوئے توان کیفیات کو یوں بیان فرماتے ہیں:-

جھکا   جب   مزارِ   یار    پر،   اَنْتَ اَنَا وَاَ نَا اَنْتَ      کی   آئی    صدا 
کی عرض کہ اس قابل نہیں ہوں، فرمایا یہی تو ہے ہماری عطا
دیکھ ذرا قلب کے اندر کہ یہ تو ہے کہ میں
دنیا اور وجود اپنا چھوڑ کر میں قالب تیرے میں آبسا

 

اپنے مرشد سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کی شان میں ایک خوبصورت منقبت لکھی:

سلطان محمد اصغر علیؒ مظہرِ ذاتِ رَباّنی
روحِ باھوؒ، محبوبِ شاہِ جیلانیؓ
سلطان الفقر، منبع فیضِ سلطانی
صاحبِ فقر، مقام لامکانی

مرادِ سلطان عزیزؒ، حیاتِ جاودانی
سلطان محمد اصغر علیؒ مظہر ذاتِ رَبّانی

ازل سے حاصل مرتبہ حق الیقین
ہر لمحہ دیدارِ ذات میں محو امامِ مبیں 
فقیر باصفا فنا فی اللہ بقا باللہ بالیقین
نگاہ نہ ہٹی حق سے کبھی تیری سلطانِ مبیں

بحرِ حقیقت، وجودِ بشر، روحِ رحمانی
سلطان محمد اصغر علیؒ مظہر ذاتِ رَباّنی

چہرے پہ ’’للہ‘‘ خاص نشانی
لایحتاج مرتبہ، سر پہ تاجِ سلطانی
مقام ’’حریم ذاتِ کبریا‘‘ خاص فضلِ رباّنی
اِذَا     تَمَّ     الْفَقْرُ      فَھُوَ     اللّٰہ،     لازوال     زندگانی

محسنِ زمانہ مصطفی ثانی مجتبیٰ آخر زمانی
سلطان محمد اصغر علیؒ مظہر ذاتِ رَبّانی

آپؒ کی نگاہِ کامل سے ناقصوں کو کمال ملا
ملا سب کو عشق مگر خواص کو مانندِ بلالؓ ملا
صاحبِ قرآن محبوبِ خدا سے نورِ جمال ملا
جسے زوال نہیں کبھی ایسا آپؒ کو وصال ملا

جانِ سلطان بہادر شاہؒ، محبوبِ یزدانی
سلطان محمد اصغر علیؒ مظہر ذاتِ رَباّنی

سلطان باھوؒ نے کیا یہ راز فاش سلطان الفقر
غوث و قطب کے سر پہ ہے آپؒ کا قدم سلطان الفقر
ماہ و خورشید ماند آپؒ کے حسنُ کے سامنے سلطان الفقر
منور ہوئے آپؒ کی نگاہِ کامل سے سیاہ قلوب سلطان الفقر

یار یگانہ، سرِّھُو، ولادتِ رمضانی
سلطان محمد اصغر علیؒ مظہر ذاتِ رَباّنی

وہ محفلِ عشاق میں آپؒ کا دبے پاؤں آنا
عاشقوں سے نگاہیں ملا کے وہ نگاہوں کا جھکانا
ہلکے سے تبسم سے وہ دِلوں کا گرمانا
دید میں تڑپتی روحوں کو اک نظر سے دیوانہ بنانا

نجیبؔ ہوا انہی اداؤں سے گھائل، دلبرجانی
سلطان محمد اصغر علیؒ مظہر ذاتِ رَباّنی

اسمِ اللہ ذات ہے پیغام سلطان الفقر کا
بھول نہ جانا یہ کام سلطان الفقر کا
زمانے کو بتلانا ہے ابھی مقام سلطان الفقر کا
دنیا میں پھیلانا ہے ابھی نام سلطان الفقر کا

نجیبؔ کو ہے یہ خاص وصیت اے نوعِ انسانی
سلطان محمد اصغر علیؒ مظہر ذاتِ رَبّانی

 

*******

سلام بحضور سلطان الفقر ششمؒ 

صاحبِ مسمیّٰ اسمِ ذات، سیدّالکونین، ششم سلطان الفقر کو سلام
جس کی نگاہ سے ہوئے منور قلوب، اس سلطان الفقر کو سلام

جس کے نور سے ناقصوں کو کمال ملا، اس انسانِ کامل کو سلام
جس نے عشق کی مے کو عام کر دیا، اس ساقیٔ زمانہ کو سلام

جسم میں روح جس سے زندہ ہوئی اس طبیبِ باکمال کو سلام
رازِ حقیقت سے آگاہ جس نے کیا، اس بحرِ حقیقت کو سلام

جس نے اس خادم کو محرم راز بنایا اُس صاحبِ مسمّٰی اسمِ ذات کی عنایت کو سلام
نور کی حقیقت جہاں سے ملی للہ کی نشانی والے اس ہادی اکمل کو سلام

سلطان عزیزؒ کے محبوب، روحِ باھوؒ اور شاہِ جیلانیؓ کے مطلوب کو سلام
عطا کیا سرِّ ھُو جس نے نجیبؔ جیسے بے مایہ و بے نشاں کو اُس امامِ سخاوت کو سلام