Ilm-e-Dawat

سلطان العاشقین اور فیض علمِ دعوت

Rate this post

سلطان العاشقین اور فیض علمِ دعوت

علمِ دعوت

جس طرح ظاہری دنیا میں رابطے کے بہت سے ذرائع ہیں مثلاً ٹیلی فون، موبائل فون، انٹرنیٹ وغیرہ جن کے ذریعے ہم اپنے عزیز رشتہ داروں اور دوستوں سے رابطے میں رہتے ہیں اسی طرح باطنی دنیا میں بھی ہمارے تمام بزرگ اولیاؒ، صحابہ کرامؓ اور انبیا ؑ سے رابطہ کا ذریعہ علمِ دعوت ہے۔  علمِ  دعوت ایک خاص باطنی عمل ہے جس میں اولیا اللہ کے مزارات پر مرشد کامل کی اجازت سے ایک خاص ترتیب سے قرآن پڑھ کر اولیا، صحابہ ؓ و انبیا علیہم السلام سے روحانی طور پر رابطہ و ملاقات کی جاسکتی ہے۔ ہمارے بزرگ اولیاؒ، صحابہ کرامؓ اور انبیا ؑ ہمارے حقیقی و باطنی مددگار بھی ہیں اور ہمارے فیض رساں بھی ہیں۔ دعوت کے ذریعے ان سے رابطہ کر کے ان سے محبت کا اظہار بھی کیا جا سکتا ہے، باطنی فیض کے لیے درخواست بھی کی جا سکتی ہے اور مشکلات کے حل کے لیے بھی عرض پیش کی جا سکتی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیثِ مبارکہ ہے:
اِذَا تَحَیَّرْتُم فِی الْاُمُوْرِ فَاسْتَعِیْنُوْا مِنْ اَھْلِ الْقُبُورِ
ترجمہ: جب تم اپنے معاملات میں پریشان ہو جایا کرو تو اہل ِ قبور سے مدد مانگ لیا کرو۔

یعنی اگر کوئی حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہم، امام حسن و حسین رضی اللہ عنہم یا سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ یا حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ سے بہت محبت رکھتا ہے اور ان سے روحانی ملاقات کرنا چاہتا ہے تو مرشد کامل اکمل کے وسیلے اور ان کے عطا کیے ہوئے علمِ دعوت (جسے دعوت القبور بھی کہا جاتا ہے) کے ذریعے کر سکتا اور ان سے مدد و فیض مانگ سکتا ہے۔ لیکن جب تک مرشد کامل اکمل یہ علم عطا نہ کرے اور خود ان اولیا و صحابہؓ کی بارگاہ تک نہ پہنچائے، کوئی طالب مرید خود سے یہ جرأت نہیں کر سکتا۔ اگر کرے گا بھی تو کچھ نہ پائے گا۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے پہلی بار علمِ دعوت کو کھول کر اپنی کتب میں بیان کیا اور سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے اسے صادق طالبوں پر پہلی بار کھول کر عطا کر دیا۔ حضرت سلطان باھوؒ علمِ دعوت کے متعلق فرماتے ہیں:
آدمی کو معرفتِ الٰہی قرآنِ مجید سے حاصل ہوتی ہے۔ جب وہ اولیا اللہ کی قبور کی ہم نشینی میں قرآنِ مجید کی تلاوت کرتا ہے تو اُس کی ہر مشکل حل ہوجاتی ہے۔ باطن میں انبیا اور اولیا اللہ کی ارواح سے مجلس و ملاقات اور دست مصافحہ کا شرف بھی قرآنِ مجید اور اولیا اللہ کی قبور سے حاصل ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح ’’قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہ‘‘ کا مرتبہ بھی قرآنِ مجید اور قبورِ اولیا اللہ سے حاصل ہوتا ہے۔ قوتِ حاضراتِ روحانیاں اور اسمِ اعظم بھی قرآنِ مجید اور قبورِاولیا اللہ سے حاصل ہوتا ہے۔ الہام و غرقِ وحدانیت کا مرتبہ اور ذکر فکر، مذکور حضور کی روانی بھی قبورِ اولیا کی معیت میں قرآن خوانی سے حاصل ہوتی ہے۔ علمِ فیض اللہ، علمِ لدنیّ، معرفتِ الٰہی اور تمام کسبی رسمی علوم بھی قبورِاولیا کی معیت میں قرآن پڑھنے سے حاصل ہوتے ہیں۔ ملکِ سلیمانی کا مکمل قبضہ، ظاہر و باطن کے ہر مقام کا تصرف اور دنیا میں عالمگیر بادشاہی کا غلبہ بھی قبورِ اولیا کی ہم نشینی میں قرآن پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ عالم عامل کامل لایحتاج عارف باللہ فقیر کا مرتبہ بھی قبورِ اولیا کی ہم نشینی میں قرآن پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے لیکن یہ سب کچھ تب ہوتا ہے جب اس دعوت کے پڑھنے کے لیے حکم و اجازت دینے والا کوئی شہسوارِقبر مرشد کامل ہو جو ظاہر  باطن کے ہر طریق سے باخبر اور نفس پر امیر ہو۔ یہ مرتبہ اُس ولی اللہ فقیر کو حاصل ہوتا ہے جس کا باطن صاف ہو۔ منتہی صاحبِ دعوت کے اردگرد چار لشکر ہر وقت موجود رہتے ہیں جو اُس کی حفاظت و نگہبانی کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ اُن لشکروں کو چشمِ ظاہر سے نہیں دیکھتا تاہم کوئی لشکر بھی اُسے اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا۔ وہ چار لشکر یہ ہیں:
1۔سرورِ دو عالم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، اُن کے اصحابِ ؓکبار اور جملہ دیگر صحابہ کرام کی ارواح کا لشکر۔
2۔شہدا کا لشکر، جملہ امامین شہیدین شریفین ابی محمد الحسن و ابی عبداللہ الحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا لشکر۔
3۔مؤکل فرشتوں کا لشکر۔
4۔عالمِ غیب کے جنوں اور دیگر صاحبِ دعوت اولیا کرام کا لشکر۔ 

یہ تمام لشکر ہر قسم کے اسلحہ مثلاً تلوار، تیر، برچھا، نیزہ، کلہاڑی و بندوق وغیرہ سے لیس ہوتے ہیں۔ جب یہ جذب و غضب اور قہر و غصہ میں آکر صاحبِ دعوت کے دشمن پر غیب الغیب سے وار کرتے ہیں تو اُسے شدید زخمی کر دیتے ہیں اور وہ درد سے مغلوب ہو کر مر جاتا ہے۔ لیکن فقیر کو چاہیے کہ وہ خیر طلب اور خدا ترس ہو، خود تکلیف اٹھائے لیکن کسی اور کو دکھ نہ دے کہ بندہ جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:   
مَنْ حَفَرَ بِئْرًا لِاَخِیْہِ فَقَدْ وَقَعَ فِیْہ 
ترجمہ: جو اپنے بھائی کی راہ میں کنواں کھودتا ہے وہ خود اُس میں گرتا ہے۔
اَلْحُبُّ لِلّٰہِ وَ الْبُغْضُ لِلّٰہِ
ترجمہ: کسی سے محبت کرو تو اللہ کے لیے کرو اور کسی سے بغض رکھو تو بھی اللہ کے لیے رکھو۔ 

جو آدمی اللہ کے دوستوں کو ستاتا ہے بے شک وہ دونوں جہان میں خراب ہوتا ہے۔ بعض آدمی اہلِ دنیا پر غلبہ کے لیے دعوت پڑھتے ہیں لیکن وہ دعوت کا مطلب تک نہیں جانتے جیسا کہ کئی آدمی سانپ پر منتر پڑھ کر اُسے اپنا قیدی بنا لیتے ہیں حالانکہ اُن کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ منتر پڑھ کر اُس درندے کو پکڑ لیں۔ ایسے لوگوں کو اولیا اللہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ تو محض منتر باز ہیں۔ (محک الفقر کلاں)

علمِ دعوت سے علوی اور سفلی اٹھارہ ہزار قسم کی مخلوق، جن و انسان، فرشتہ، مؤکل وغیرہ مسخر کیے جاتے ہیں۔ اس جہان کی تمام چھوٹی و بڑی مخلوقات قابو میں آتی ہیں اور ذات و صفات کے تمام مراتب حاصل ہوتے ہیں۔ دعوت پڑھنے کی ترتیب اور زکوٰۃ بے شمار ہے لیکن عمل میں لانا بہت مشکل ہے۔ طالب سوائے حکمِ الٰہی اور اجازتِ نبویؐ کے، دعوت کے لائق نہیں ہوتا۔ ناقص اور خام حرص و ہوا میں مبتلا رہتا ہے۔ جو اسمِ  اللہ ذات کے تصور سے ذات کے مشاہدہ میں مستغرق رہتا ہے اُسے دعوت کے اخیر پر انبیا اور اولیا اللہ کی مجلس نصیب ہوتی ہے۔ ہر ایک روح سے ملاقات ہوتی ہے۔ اس قسم کے مراتب اسمِ اللہ ذات کے تصور، دعوتِ قبور اور منظورِ الٰہی ہونے سے حاصل ہوتے ہیں۔ دعوت کی علامات چار قوتیں ہیں، اوّل اسے حصار کی قوت کی ضرورت نہیں ہوتی، دوم اسے گوشت وغیرہ ترک نہیں کرنا پڑتا، سوم توحید و نورِ الٰہی میں غرق ہونے کی قوت حاصل ہوتی ہے، چہارم اسے مجلسِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری حاصل ہوتی ہے۔ وہ مجلسِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جواب با صواب حاصل کر لیتا ہے۔ (اسرارِ قادری)

جو دعوت کو توجہ، تصور، تصرف اور زبانِ روح سے پڑھتا ہے اس کے ارد گرد تمام انبیا و اولیا اللہ، اہلِ اسلام اور اہلِ ایمان کی ارواح جمع ہو جاتی ہیں اور حلقے باندھ کر اس کی مدد کے لیے اس کے ساتھ مل کر دعوت پڑھتی ہیں۔ ایسی دعوت ایک ہی لمحے اور ایک ہی قدم میں قبول و منظور ہو جاتی ہے۔ اگرچہ اس دعوت کا مقصد مشرق سے لیکر مغرب تک پھیلے ہوئے ملکِ سلیمانی پر تصرف حاصل کرنا کیوں نہ ہو، بے شک تحقیق و توفیق کے ساتھ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ جو علمِ دعوت کو زبانِ سِرّ اور کنۂ تصورِ اسمِ  اللہ ذات سے پڑھتا ہے بے شک پل بھر میں اس کا ظاہر و باطن نور میں ڈھل کر اللہ کی نظر میں منظور ہو جاتا ہے۔ علمِ دعوت کی رو سے ایسی دعوت کو ’حضور القرب‘ کہتے ہیں۔ جو علمِ دعوت کو نوری زبان اور تصورِ اسمِ محمد سے پڑھتا ہے تو بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مقدس و معظم و مکرم روح مبارک بمع اکبر و اصغر صحابہ کرام و اصحابِ بدر رضی اللہ عنہم کی ارواحِ مبارکہ حاضر ہو کر اس کے گرد حلقہ باندھ لیتی ہیںاور اس کی مدد کے لیے قرآنی آیات کے دور بدور سے دعوت پڑھتی ہیں۔ ایسی دعوت اگر ایک دفعہ ہی پڑھ لی جائے تو اس کا عمل قیامت تک نہیں رکتا۔ اس مرتبے کے متعلق فرمایا گیا ہے :
لِسَانُ الْفُقَرَآئِ سَیْفُ الرَّحْمٰنِ 
ترجمہ: فقرا کی زبان رحمن کی تلوار ہے۔ 

یہ مرتبہ اسے نصیب ہوتا ہے جس کو باطن میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خود بیعت فرماتے ہیں اور اپنا لعابِ دہن اس کے منہ میں ڈال دیتے ہیں۔ ان تما م مراتب ِ دعوت کی کلید حضرت شاہ محی الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ہاتھ میں ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)

دعوت کے ان مراتب کا تعلق زبانی قیل و قال اور گفتگو سے نہیں بلکہ اس کا تعلق دَعْ نَفْسَکَ وَتَعَالَ(اپنے نفس کو چھوڑ دے اور اللہ تعالیٰ کو پالے) کے لائحہ عمل سے ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
اُقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ بِسَیْفِ الْمُجَاھَدَۃِ 
ترجمہ: مجاہدے کی تلوار سے اپنے نفسوں کو قتل کر دو۔
البتہ اہلِ نفس کو یہ طاقت کہاں کہ وہ روحانی کی قبر کے پاس جا کر اُس سے جنگ کرے؟ یہ روحانیت کی وہ راہ ہے کہ جس میں حقیقتِ روحانیت اولیا اللہ پر غالب ہوتی ہے۔ توُ اچھی طرح جان اور سمجھ لے کہ اسمِ  اللہ کا مجاہدہ تلوار کے مجاہدے سے غالب تر مجاہدہ ہے۔ محض ایک دفعہ پڑھ لینے سے دعوت ہرگز رواں نہیں ہوتی اور نہ ہی زیرِعمل آتی ہے جب تک کہ اہلِ دعوت اس طرح دعوت نہ پڑھے کہ دعوت شروع کرتے وقت وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے روبرو حاضر سمجھے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنا شفیع بنائے، حضرت محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی قدس سرہُ العزیز کو امینِ الٰہی سمجھے اور خود کو منصف بنا کر آنکھیں بند کر لے اور مراقبہ میں تفکر کرے کہ خدا تعالیٰ سے بہتر کون سی چیز ہے جسے میں دعوت پڑھ کر مسخر کروں؟ اگر اُسے یہ یقین ہو جائے کہ تمام مخلوق کمتر ہے اور خالق تمام مخلوق سے برتر ہے تو اللہ تعالیٰ اُس پر مہربان ہو جائے گا اور دونوں جہان اُس کے تابع کر کے خدمت گار بنا دے گا۔  (محک الفقر کلاں) 

علمِ دعوت کے تفصیلی مطالعہ کے لیے وزٹ کریں:https://www.sultan-bahoo.pk/ilm-e-dawat-e-qaboor-sultan-bahoo-ilme-dawat

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس علمِ  دعوت کے متعلق فرماتے ہیں:
علمِ دعوت ایک دینی و روحانی عمل ہے جس میں کسی عارف، فقیر یا ولی کے مزار پر ایک خاص ترتیب سے قرآنِ پاک پڑھا جاتا ہے جس سے اہلِ مزار کی روح حاضر ہوجاتی ہے اور صاحبِ دعوت کی مدد کرتی ہے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ علمِ دعوت اور کشف القبور میں بڑا فرق ہے۔ کشف القبور میں عام مسلمانوں کی قبروں پر دعوت پڑھ کر اہلِ قبور کے حالات معلوم کیے جاتے ہیں کہ وہ برزخ میں کس حالت میں ہیں لیکن علمِ دعوت صرف فقرا یا اولیا کرام کے مزارات پر پڑھی جاتی ہے۔ (شمس الفقرا)

 علمِ دعوت راہِ فقر میں اہم حیثیت رکھتا ہے جو مرشد کامل طالب کو اس وقت عطا کرتا ہے جب وہ تصور اسمِ اللہ ذات سے حضورِ حق میں پہنچ جاتا ہے۔ لیکن طالب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی طلب صرف دیدارِ حق تعالیٰ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری ہونی چاہیے۔ (شمس الفقرا)

یعنی جب مرشد کی مہربانی سے طالب دعوت پڑھ کر کسی نبی، صحابی یا ولی کی بارگاہ میں حاضری دے تو ان سے دیدارِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری ہی طلب کرے نہ کہ مردار دنیا کے فانی فوائد مانگے۔ اسی لیے علمِ دعوت انہی خالص طالبوں پر کھلتا ہے جن کی طلب اللہ کے دیدار و رضا کے لیے خالص ہو نہ کہ دنیاوی خواہشوں سے آلودہ ہو۔

حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
دعوت پڑھنے سے کامل کو خزانے عطا ہوتے ہیں اور ناقص کو دعوت کے دوران ہی تیغِ برہنہ کی مثل رنج پہنچتا ہے۔ دعوت عطا کرنا آسان کام نہیں ہے۔ مرد مذکر اور عارف کامل ولی اللہ جو باخبر اور ہوشیار ہو وہی دعوت پڑھنے کا عامل ہے ورنہ دعوت پڑھنے کے لائق احمق اور حیوانات کی مثل لوگ نہیں ہو سکتے۔ (امیر الکونین)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دور سے قبل عام مسلمان علمِ دعوت کے تصور تک سے آگاہ نہ تھے لیکن آپ مدظلہ الاقدس نے کمال مہربانی سے یہ انتہائی اعلیٰ باطنی علم سینکڑوں صادق و مخلص طالبانِ مولیٰ کو عطا فرمایا اور ان کا روحانی تعلق ان کے بزرگ اور محبوب اولیا و صحابہ سے جوڑا۔ آپ مدظلہ الاقدس کے کمالِ روحانیت اور اولیا کے ہاں آپ کی محبوبیت کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب سے پہلے علم ِ دعوت صرف مرد طالبانِ مولیٰ کو عطا کیا جاتا تھا اور اسے کسی ولی کے مزار پر حاضر ہو کر پڑھنا لازم تھا لیکن آپ مدظلہ الاقدس نے اولیا اللہ سے اس بات کی اجازت حاصل کی کہ خواتین طالبانِ مولیٰ کو بھی علمِ دعوت کے اس اعلیٰ ترین روحانی فیض سے محروم نہ رکھا جائے اور اس پابندی کو اٹھا لیا جائے کہ دعوت کسی ولی کے مزار پر جا کر ہی پڑھی جائے۔ آپ سیدّنا غوث الاعظمؓ کے لاڈلے، حضرت سخی سلطان باھوؒ کے محبوب اور سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کا روپ ہیں۔ لہٰذا آپ مدظلہ الاقدس کی اس درخواست کو شرفِ قبولیت حاصل ہوا اور آپ نے مرد طالبوں کے ساتھ ساتھ خواتین طالبوں کو بھی گھر بیٹھے علمِ دعوت پڑھنے کی اجازت عطا فرمائی اور خصوصاً تمام کی تمام خواتین طالبانِ مولیٰ پر دعوت کھول دی۔

ہمارا دعویٰ ہے کہ اس دور میں ایسا باکمال، مہربان اور اعلیٰ ترین درجات کا حامل کوئی اور مرشد کامل اکمل موجود نہیں ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے اپنی بارگاہ کا فیض تمام اُمتِ مسلمہ کے لیے بغیر فرقہ و جماعت کی تفریق کے سب کے لیے کھول دیا ہے۔ ہر مسلمان کو، خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی ہو، عام دعوت ہے کہ وہ آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں نیک نیت اور نیک طلب لے کر آئے اور دین و دنیا کی فلاح پائے۔

علمِ دعوت کے تفصیلی مطالعہ کے لیے وزٹ کریں:
https://www.sultan-bahoo.pk/ilm-e-dawat-e-qaboor-sultan-bahoo-ilme-dawat