سلطان العاشقین سلطان محمد نجیب الرحمن کا تلقین و ارشاد کا آغاز
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمدنجیب الرحمن مدظلہ الاقدس صاحبِ مسمٰی مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمدنجیب الرحمن مدظلہ الاقدس صاحب ِمسمّٰی مرشد ِ کامل اکمل جامع نور الہدیٰ فقیر مالک الملکی ہیں جن کی نگاہِ کیمیا اثر کی کوئی حد نہیں۔ طالبانِ مولیٰ آپ مدظلہ الاقدس کی محفل میں بیٹھے ہوں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں آپ کی نگاہِ فیض رساں سے یکساں طور پر مستفید ہوتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی ایک نگاہ زنگ آلود قلوب کے لیے صیقل کا کام کرتی ہے اور دلوں سے دنیا اور حبِ دنیا کی ظلمت کو دور کر کے اس میں معرفتِ الٰہی کا نور بھر دیتی ہے۔
نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
آپ مدظلہ الاقدس سروری قادری مرشد کامل اکمل ہیں جن کے متعلق حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
سروری قادری مرشد جامع و مجمل ہوتا ہے۔ وہ باطن اور ظاہر میں ایسی کتاب ہوتا ہے جو طالبوں کے لیے کتب الاکتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ جس کے مطالعہ سے طالب فنا فی اللہ ہو جاتے ہیں اور اس ذات کو بے حجاب دیکھتے ہیں۔ (کلید التوحید کلاں)
طالبان را ہر مطالب خوش نما
اعتقاد صدق خواں و ز دل صفا
ترجمہ: طالبانِ مولیٰ اگر اعتقاد، صدق اور دل کی پاکیزگی سے اس کتاب کو پڑھیں تو وہ ہر مقصود باآسانی پا لیتے ہیں۔
عارف کامل قادری بہر قدرتے قادر و بہر مقام حاضر
ترجمہ:عارف کامل قادری (صاحبِ مسمیّٰ مرشد کامل سروری قادری) ہر قدرت پر قادر اور ہر مقام پر حاضر ہوتا ہے۔
سروری قادری مرشد کی اصل حقیقت یہ ہے کہ سروری قادری فقیر ہر طریقے کے طالب کو عامل کامل مرتبے پر پہنچا سکتا ہے کیونکہ دیگر ہر طریقے کے عامل کامل درویش سروری قادری فقیر کے نزدیک ناقص و ناتمام ہوتے ہیں کہ دوسرے ہر طریقے کی انتہا سروری قادری کی ابتدا کو بھی نہیں پہنچ سکتی خواہ کوئی عمر بھر محنت و ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا پھرے۔(محک الفقر کلاں)
دنیا میں ایسے سروری قادری لایحتاج فقیر بہت ہی کم پائے جاتے ہیں جو دنیا اور عقبیٰ سے بے نیاز صاحب ہدایت و صاحب رازِ عنایت ہوتے ہیں، ایک ہی دم میں دونوں جہان طے کر کے صاحبِ جو دو کرم ہو جاتے ہیں۔ سروری قادری فقیر کی نظر وحدانیت اِلٰہَپر ہوتی ہے، سروری قادری فقیر ایسا بادشاہ ہے جو معرفت ِ الٰہی کے اسرار سے ہر وقت آگاہ رہتا ہے۔(محک الفقر کلاں)
سروری قادری مرشد بھی دو طرح کے ہوتے ہیں:
صاحبِ اسمِ: صاحبِ اسم صاحبِ ذکر ہے اور صاحبِ اسم مقامِ خلق پرہوتا ہے۔ یہ خلفا ہوتے ہیں۔
صاحبِ مسمیّ: صاحبِ مسمّٰی فقیر فنا فی اللہ بقاباللہ ہوتا ہے۔ امانتِ الٰہیہ، خلافتِ الٰہیہ کا حامل اور انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہے اور یہی مرشدِ کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہے۔ اِن کے مریدین کو تصور اسمِ اللہ ذات سے تصورِ شیخ حاصل ہوتا ہے۔ ایسے مرشد کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
فقیر عارف باللہ اُسے کہتے ہیں جو فنا فی اللہ، فنا فی الرسول، فنا فی فقر اور فنا فی ’’ھوُ‘‘ ہو۔ (عین الفقر)
صاحبِ اسم اور صاحبِ مسمّٰی کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُرحمتہ اللہ علیہ عین الفقر میں فرماتے ہیں:
اسم اور مسمیّٰ میں کیا فرق ہے؟ صاحبِ اسم (محض) ذکر کرنے والا ہوتا ہے اور صاحبِ مسمیّٰ اللہ تعالیٰ کی ذات میں غرق ہوتا ہے۔ صاحبِ اسم مقامِ مخلوق پر ہوتا ہے اور صاحبِ مسمیّٰ مقامِ غیر مخلوق پر ہوتا ہے۔ صاحبِ مسمّٰی پر ذکر حرام ہے کیونکہ صاحبِ مسمیّ ظاہر اور باطن میں ہر وقت حضوریٔ فنا فی اللہ میں مکمل طور پر غرق ہوتا ہے۔ (عین الفقر)
صاحبِ مسمیّٰ مرشد کی تعریف کرتے ہوئے حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ محک الفقر کلاں میں فرماتے ہیں:
اس راہ (فقر) کا تعلق عرف (شہرت ، نام و ناموس) سے نہیں بلکہ عرفانِ حق سے ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے عطا کرتا ہے وہ مطلق مسمیّٰ فنا فی اللہ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ راہ ِمعرفتِ مسمیّٰ کا تعلق گفتگو سے نہیں بلکہ عطائے الٰہی سے ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے عطا کرتا ہے وہ عارف باللہ ہو جاتا ہے اور وہی اسے جانتا پہچانتا ہے ۔
مسمیّٰ آں کہ باشد لازوالی
نہ آں جا ذکر و فکر نہ وصالی
بود غرقش بہ وحدت عین دانی
فنا فی ،اللہ شود سرِّ نہانی
ترجمہ: مقامِ مسمیّٰ لازوال مقام ہے جہاں پر ذکر، فکر اور وصال کی گنجائش نہیں۔ اس مقام پر پہنچ کر طالبِ مولیٰ فنا فی اللہ فقیر ہوجاتا ہے اور اُس پر رازِ پنہاں ظاہر ہو جاتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس صاحبِ مسمی سروری قادری مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ کی تمام جامع صفات کا مجموعہ ہیں۔سروری قادری مرشد کے تمام تصرفات اور کمالات آپ مدظلہ الاقدس کی مبارک ذات میں جمع ہیں جن کا مشاہدہ آپ کا ہر وہ طالب مرید اپنے باطن میں کرتا ہے جس کا قلب آپ مدظلہ الاقدس کی مہربانی اور نگاہِ فیض سے زندہ ہو کر عالمِ لاھوت تک پرواز کرنے کے لائق ہو چکا ہو۔ البتہ جو طالب ابھی مقامِ ناسوت یعنی اس ظاہری دنیا میں ہی قید ہے وہ آپ مدظلہ الاقدس کی حقیقت سے بے خبر رہتا ہے اور آپ مدظلہ الاقدس کو ایک عام بشر ہی سمجھتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی ترتیب بھی یہی ہے کہ جو طالب جس مقام پر ہوتا ہے آپ اس سے اسی کے مقام کے مطابق گفتگو فرماتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنے ہر طالب کی ہر ظاہری و باطنی حالت سے مکمل طور پر آگاہ ہوتے ہیں کہ یہی سروری قادری مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ کا کمال ہے کہ اس کا کوئی طالب کسی بھی لمحہ اس کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتا خواہ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ہو۔جیسے کہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مرشد کامل وہ ہوتا ہے جو طالب کے ہر حال، ہر قول، ہر عمل، ہر فعل اور اس کی ہر حالتِ معرفت و قرب و وِصال اور اس کے خطرات، دلیل اور وھم و خیال سے باخبر ہو۔ مرشد کو ایسا ہوشیار ہونا چاہیے گویا طالب کی گردن پر سوار ہو اور اس قدر ہوشیار ہو کہ طالب کی ہر بات اور ہر دم سے باخبر ہو۔ ایسے مرشد کا باطن آباد ہوتا ہے اور طالب اسمِ اللہ ذات کے حاضرات کے ذریعے اسے ظاہر و باطن میں حاضر سمجھتا اور اس پر اعتقاد رکھتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
آپ مدظلہ الاقدس اپنے تصرف، اختیار اور نگاہ کے کمال سے مرید طالب کے نفس کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ کر کے اسے آئینے کی مانند شفاف بنا دیتے ہیں۔ بطور طبیب اسے اس کی تمام باطنی بیماریوں مثلاً حسد، تکبر، لالچ، ہوس، کینہ، عجب یا خود پسندی، بہتان وغیرہ سے مکمل طور پر نجات دلا کر اسے تمام خصائص رذیلہ سے بالکل پاک فرما دیتے ہیں اور پھر اس کے نفس کو امارہ سے لوامہ اور لوامہ سے ملہمہ کے درجے تک پہنچاتے ہوئے اسے تمام اوصافِ حمیدہ سچائی، خلوص، نیک نیتی، اللہ کی بے غرض محبت، صبر، استقامت، عاجزی، تسلیم و رضا اورشکر سے مزین و آراستہ کر دیتے ہیں۔ طالب کی پرانی شخصیت کو اپنی صحبت و قرب کے فیض سے یکسر تبدیل کر کے اسے ایسی باکمال، خوش اخلاق اور نورِ ایمان سے بھرپور شخصیت عطا کر دیتے ہیں کہ طالب خو دبھی اپنے آپ کو پہچان نہیں پاتا۔ طالب کو ظلمت و جاہلیت سے نکال کر نور ِمعرفت عطا کرتے ہیں جس کی روشنی میں وہ اپنے نفس کو پہچان کر اپنے اندر اپنے ربّ کی پہچان حاصل کرتا ہے جیسے کہ حدیثِ قدسی میں فرمایا گیا :
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے ربّ کو پہچانا۔
آپ مدظلہ الاقدس اپنے مریدین کویوں پاک فرمادیتے ہیں جیسے کہ اس بیت میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
کامل مرشد ایسا ہووے، جیہڑا دھوبی وانگوں چَھٹّے ھوُ
نال نگاہ دے پاک کریندا، وِچ سَجّی صبون نہ گھتے ھوُ
میلیاں نوں کردیندا چِٹّا، وِچ ذرّہ میل نہ رَکھے ھوُ
ایسامرشد ہو وے باھوؒ، جیہڑا لوُں لوُں دے وِچ وَسّے ھوُ
مفہوم: مرشد کامل کو دھوبی کی طرح ہونا چاہیے۔ جس طرح دھوبی کپڑوں میں میل نہیں چھوڑتا اور میلے کپڑوں کو صاف کردیتا ہے اسی طرح مرشد کامل اکمل طالب کو ورد و وظائف، چلہ کشی اور رنجِ ریاضت کی مشقت میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ اسمِ اللہ ذات کی راہ دکھا کر اور اپنی نگاہِ کامل سے تزکیۂ نفس کر کے اس کے اندر سے قلبی اور روحانی امراض کا خاتمہ کرتا ہے۔ اسے خواہشاتِ دنیا و نفس سے نجات دلاکر اور غیر اللہ کی محبت اس کے دل سے نکال کر صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق میںغرق کردیتا ہے۔ مرشد تو ایسا ہونا چاہیے جو طالب کے لوُں لوُ ں میں بستا ہو۔ (ابیاتِ باھوُکامل)
بطور رہنما آپ مدظلہ الاقدس طالبانِ مولیٰ کو اس دنیا، نفس و شیطان کی فریب کاریوں، پھندوں اور آفتوں سے بھرپور جنگل سے بآسانی نکال کر قربِ حق تعالیٰ تک لے جاتے ہیں۔ ہر لمحہ ہر قدم پر آپ مدظلہ الاقدس باطن میں طالبِ مولیٰ کی خواجہ خضر کی طرح رہنمائی کرتے ہیں۔ راہِ فقر میں جہاں کہیں مشکل مقامات آئیں آپ مدظلہ الاقدس طالب کی ہمت بندھاتے ہوئے خود اپنی مہربانی سے اسے وہاں سے گزارتے اور اس کی راہ کی مشکلوں کو آسان بناتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ طالب مرشد پر کا مل یقین اور اعتقاد رکھے اور صدق اور اخلاصِ نیت سے اُن کی اطاعت کرے۔ جو طالب مرشد کی نافرمانی کرتے ہوئے ان کے ظاہر میں بتائے ہوئے طریقے یا باطنی طور پر الہام کیے گئے حکم پر عمل نہ کرے گا، وہ ان آفتوں اور پھندوں میں پھنس سکتا ہے۔ ان سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ مرشد کی فراست،تجربے اور اعلیٰ ترین مقام و مرتبے پر یقین اور اعتقاد کر کے بغیر کسی اعتراض کے اُن کی مکمل اطاعت کی جائے۔ اگر طالب پرُخلوص ہو اور مرشد پاک کی مکمل اطاعت کرے تو ممکن ہی نہیں کہ آپ مدظلہ الاقدس جیسا کامل رہنما اسے دنیا و شیطان و نفس کے کسی بھی فریب میں پھنسنے دے۔
مرُشد سدا حیاتی والا باھوؒ، اوہو خضر تے خواجہ ھوُ
آپ مدظلہ الاقدس اپنی رہنمائی میں طالبِ مولیٰ کو اس دنیا کے جنگل سے نکال کر عالمِ ناسوت کا سفر طے کراتے ہوئے عالمِ ملکوت سے عالمِ لاھوت تک لے جاتے ہیں جہاں وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کرتا ہے۔ ان تمام عالموں میں شیطان کے جال موجود ہیں جیسے کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اے غوث الاعظمؓ! جب تم نے میرے حرم میں داخل ہونے کا ارادہ کر لیا تو ملک، ملکوت اور جبروت کی طرف متوجہ نہ ہو کیونکہ ملک(یہ مادی دنیا جہاں انسان جسمانی صورت میں موجود ہے۔) عالم کا شیطان ہے، ملکوت(عالمِ مثال جہاں ارواح مثالی صورت میں موجود ہیں۔) عارف کا شیطان ہے اور جبروت ( عالمِ ارواح۔ ناسوت ، ملکوت اور جبروت سے آگے عالمِ لاھوُت ہے جو انسان کا اصلی وطن ہے اور جس کی حد پر پہنچ کر ہی اسے دیدار و قربِ الٰہی میسر آتا ہے۔ ) واقف کا شیطان ہے۔ پس جو ان میں سے کسی ایک پر بھی راضی ہو گیا وہ میرے نزدیک دھتکارے ہوئے لوگوں میں سے ہوگا۔ (الرسالۃ الغوثیہ)
ان تمام عالموں کے شیطانی جالوں سے بچ کر نکلنا مرشد کامل اکمل کی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں جو شیطان کی تمام چالوں سے بھی واقف ہے اور ان سے بچنے کے طریقوں سے بھی۔ سیدّناغوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
اگر توُ نجات چاہتا ہے تو ایسے شیخِ کامل کی صحبت اختیار کر جو اللہ تعالیٰ کے حکم اور علمِ خداوندی کو جاننے والا ہو تاکہ وہ تجھے علم پڑھائے اور ادب سکھائے اور تجھے اللہ تعالیٰ کے راستہ سے واقف کر دے۔ مرید کو دستگیر اور رہنما کے بغیر چارہ نہیں کیونکہ وہ ایک ایسے جنگل میں ہے جس میں کثرت کے ساتھ اژدھے اور بچھو ہیں اور طرح طرح کی آفات، بھوک پیاس اور ہلاک کرنے والے درندے ہیں۔ پس وہ شیخِ کامل دستگیر اس کو ان آفات سے بچائے گا اور اس کو پانی اور پھل دار درختوں کی جگہ بتاتا رہے گا۔ جب مرید رہنما اور شیخِ کامل کے بغیر درندوں، سانپوں، بچھوئوں اور آفات سے بھرے ہوئے جنگل میں چلے گا تو نقصان اٹھائے گا۔
اے دنیا کے راستہ کے مسافر! تو قافلہ اور رہنما اور رفیقوں سے جدا نہ ہو ورنہ تیرا مال اور جان سب چلے جائیں گے اور اے آخرت کے راستہ کے مسافر! تو ہمیشہ مرشد کامل کے ساتھ رہ وہ تجھے منزلِ مقصود تک پہنچا دے گا۔ تو اس راستہ میں اس کی خدمت کرتا رہ، اس کے ساتھ حسنِ ادب سے پیش آ اور اس کی رائے سے اختلاف نہ کر۔ وہ تجھے علم سکھائے گا اور تجھے اللہ تعالیٰ کے نزدیک کر دے گا۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 50)
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نہ صرف طالبوں کو ان تمام عالموں سے بآسانی نکال کر قربِ الٰہی میں پہنچاتے ہیں بلکہ ہر دم ان کی نگہبانی بھی کرتے ہیں تاکہ وہ کسی بھی لمحے شیطان کے فریب میں نہ پھنس جائیں۔
مرُشد کامل ایسا ملیا، جس دِل دی تاکی لائی ھوُ
میں قربان اس مرُشد باھوؒ، جس دَسیاّ بھیت اِلٰہی ھوُ
مفہوم:اللہ کے فضل و کرم سے ہمیں ایسا مرشد کامل ملا ہے جس نے ہمارے دل اور روح کے تمام دریچے کھول کر دیدارِ الٰہی سے فیض یاب کر دیا ہے۔ میں اپنے مرشد پر قربان جس نے ہمیں اللہ کے تمام اسرار کا علم عطا کیا ہے۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)
بطور معلم آپ مدظلہ الاقدس طالبانِ مولیٰ کو ان کی استعداد اور طلب سے بڑھ کر علمِ لدنیّ اور علمِ اسرارِ الٰہی عطا فرماتے ہیں۔ دنیاوی طور پر ایک عام ذہنی استعداد اور کم تعلیم یافتہ طالب بھی جب آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت میں خلوصِ نیت اور علم کی طلب لے کر بیٹھتا ہے تو آپ کی گفتگو اور باطنی توجہ سے اس پر ایسے ایسے بھید اور اسرارِ الٰہی ظاہر ہوتے ہیں جن تک بڑے بڑے عالموں اور فاضلوں کی بھی رسائی نہیں۔ آیاتِ قرآنی کے حقیقی معانی آپ مدظلہ الاقدس کے فیضِ علمِ لدنیّ کی بدولت طالب کے قلب پر منکشف ہوتے ہیں۔ کتاب کا اصل علم اور سب سے قوت والا علم ’’علمِ لدنیّ‘‘ آپ مدظلہ الاقدس کے قلب میں مانند سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے جہاں سے طالب مسلسل فیض یاب ہو رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی مہربانی سے بعض اوقات طالب کے قلب پر اسرارِ الٰہی میں سے ایسا نادر نکتہ منکشف ہوتا ہے جس کا تذکرہ تصوف اور طریقت کی کسی کتاب میں نہیں ہوتا۔ طالب اللہ کی اس مہربانی اور مرشد پاک کے اس فیضِ بے بہا پر خود حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔
مرشد ہادی سبق پڑھایا، بن پڑَھیوں پیاَ پڑَھیوے ھوُ
اُنگلیاں وچ کناّں دے دِتیاں، بن سنیوں پیا سنیوے ھوُ
نین نیناں وَلوں ترُ ترُ تکدے، بن ڈِٹھیوں پیا دِسیوے ھوُ
باھوؒ ہر خانے وِچ جانی وَسدا، کن سِر اوہ رکھیوے ھوُ
مفہوم: مرشد ہادی نے اسمِ اللہ ذات کا ایسا سبق پڑھایا ہے کہ میر ادِل ہر لمحہ اسے پڑھ رہا ہے۔ کانوں میں انگلیاں دے دوں تب بھی یہ ذِکر مجھے سنائی دیتا ہے اور اب تو حالت یہ ہے کہ آنکھیں متواتر دیدارِ محبوب میں محو رہتی ہیں۔ اگر ظاہری آنکھیں بند بھی کرلوں تو بھی محبوبِ حقیقی دکھائی دیتا ہے۔ اب تو محبوب جسم کے لوُں لوُں، کان اور سر یعنی پورے وجود میں جلوہ گر ہے۔ (ابیاتِ باھوُ کامل)
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے ان تمام فیوض و برکات سے مستفید طالب اپنے باطنی مشاہدے سے آپ کی مبارک ذات میں ان تمام نشانیوں کو ملاحظہ کرتے ہیں جن کا تذکرہ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تصانیف میں کیا اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ آپ مدظلہ الاقدس کی ہی مبارک ذات کا نقشہ کھینچ رہے ہیں یا آپ ہی کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
دانا بن اور جان لے! اللہ تعالیٰ صاحبِ راز (مرشد کا مل اکمل) کے سینہ میں ہے۔ (عین الفقر)
قدرتِ توحید کا دریائے وحدت مومن کے دل میں موجزن رہتا ہے ۔جو اللہ تعالیٰ کے قرب و وصال کا طالب ہے اُسے چاہیے کہ سب سے پہلے مرشد ِکامل مکمل کی طلب کرے کیونکہ مرشد ِ کامل مکمل دل کے خزانوں کا مالک ہوتا ہے۔ اسمِ اللہ کے ذکر اور تصور کی تاثیر سے فقیر کا وجود پرُ نور ہوتا ہے۔ جو کوئی دل کا محرم ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی نعمت سے محروم نہیں رہتا۔ (عین الفقر)
مرشدِکامل کے بغیر اگر کوئی ساری عمر ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا رہے پھر بھی اسے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ بغیر پیر و مرشد کوئی اللہ تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ مرشد باطن کی راہ کے تمام مقامات و منازل سے آگاہ ہوتا ہے اور ہر مشکل کا مشکل کشا ہوتا ہے۔ مرشد کامل توفیقِ الٰہی کا دوسرا نام ہے۔ توفیقِ الٰہی کے بغیر کوئی بھی کام سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ مرشد جہاز کے تجربہ کار اور باخبر جہازران کی مانند ہوتا ہے جسے راستے میں آنے والی تمام آفات اور مشکلات (اور ان کے حل) کا علم ہوتا ہے۔ اگربحری جہازپر تجربہ کار جہازران نہ ہو تو جہاز ڈوب کر غرق ہو جاتا ہے۔ مرشد خود ہی جہاز ہے اور خود ہی جہازران ہے:فَھِمَ مَنْ فَھِمَ (جو سمجھ گیا سو سمجھ گیا)۔ (عین الفقر)
آپ مدظلہ الاقدس طالب کے باطن کو با صفا بنا کر اپنے دست مبارک سے اس کے قلب پر اسم اللہ ذات اس طرح نقش کر دیتے ہیں جوتا ابد مٹ نہیں سکتا۔ پس جس قلب پر اسم اللہ ذات نقش ہو اسے کبھی فنا نہیں۔ ایسا قلب کامل حیات کا حامل بن جاتا ہے۔ حدیث پاک ہے:
اَلشَّیْخُ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ اَیْ یُحْیِ اْلقَلْبَ اَلْمَیِّتَ الْمُرِیْدُ بِذِکْرِ اللّٰہِ
ترجمہ: شیخ (مرشد) ہی زندہ کرنے والا اور شیخ ہی مارنے والا ہے۔ شیخ مرید کے مردہ دِل کو اللہ کے ذکر سے زندہ کرتا ہے۔(سلطان الوھم)
آپ مدظلہ الاقدس مریدین کے مردہ قلوب کو ایسی حیات عطا فرماتے ہیں جو معرفتِ الٰہی سے معمور اور نورِ الٰہی سے منور ہے جیسا کہ سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
اے اللہ کے بندے! تو اولیا کرام کی صحبت اختیار کر کیونکہ ان کی یہ شان ہوتی ہے کہ جب کسی پر نگاہ اور توجہ کرتے ہیں تو اس کو (روحانی) زندگی عطا کر دیتے ہیں اگرچہ وہ شخص جس کی طرف نگاہ پڑی ہے یہودی یا نصرانی یا مجوسی ہی کیوں نہ ہو۔ اگر وہ شخص مسلمان ہوتا ہے تو اس کے ایمان، یقین و استقامت میں زیادتی ہوتی ہے۔ (ملفوظاتِ غوثیہ)
اولیا کرام کی یہ شان ہوتی ہے کہ دنیا اور آخرت ان کے دلوں اور آنکھوں سے غائب ہو چکی ہے اور انہوں نے اپنے پروردگار کو دیکھ لیا ہے۔ پس اگر وہ تجھے دیکھتے ہیں تو تجھے نفع پہنچاتے ہیں۔ ولیٔ کامل جب خشک زمین کو دیکھتا ہے تو اللہ اس کو زندہ کر دیتا ہے اور اس میں سبزہ اُگا دیتا ہے۔ (ملفوظاتِ غوثیہ)
حدیثِ مبارکہ ہے:
قَائِلُوْنَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کَثِیْرًا وَ الْمُخْلِصُوْنَ قَلِیْلًا
ترجمہ:کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا زبان سے اقرار کرنے والے تو بہت ہیں لیکن مخلص بہت کم ہیں۔
حقیقی مسلمان بننے کے لیے کلمہ طیب کے زبان سے اقرار کے ساتھ ساتھ اخلاص کے ساتھ تصدیق بالقلب بھی لازمی ہے لیکن افسوس اس دور میں کسی کو یہ ہی نہیں معلوم کہ تصدیق بالقلب سے کیا مراد ہے۔ جب تک طالب ِ مولیٰ ہر غیر اللہ کی نفی (لَا اِلٰہَ، نہیں کوئی معبود) کرکے ہر غیر ماسویٰ اللہ سے پاک نہیں ہو جاتا وہ اِلَّا اللّٰہُ (سوائے اللہ کے) کے مرتبہ پر نہیں پہنچ سکتا۔ تصدیق بالقلب واحد اللہ کے دیدار و معرفت کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ دیدار و معرفت حاصل کرنے کے بعد ہی قلب گواہی دے سکتا ہے کہ بیشک اللہ واحد ہے اور اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ قرب و دیدار اور معرفتِ الٰہی کے یہ مراتب بغیر کامل مرشد کی رہنمائی کے از خود حاصل کرنا ناممکن ہیں۔ سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
جان لے کہ مذکورہ بالا (معرفت اور حقیقت کے) مراتب خالص توبہ اور مرشد کامل کی تلقین کے بغیر حاصل نہیں ہوتے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی (سورۃ الفتح۔26)
ترجمہ:اور ان پر تقویٰ کا کلمہ لازم کیا۔
اور وہ کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے بشرطیکہ یہ (کلمہ) کسی ایسے قلب سے اخذ کیا جائے جو صاحبِ تقویٰ کا ہو اور جس میں ذاتِ الٰہی کے سوا کچھ (موجود) نہ ہو۔ اس سے مراد وہ کلمہ نہیں جو عوام کی زبانوں پر ہے۔ بے شک (کلمے کے) الفاظ ایک ہی ہیں لیکن (باطنی) معانی میں فرق پایا جاتا ہے۔ اور جب توحید کا یہ بیج زندہ دل (مرشد کامل) سے اخذ کیا جائے تو یہ قلب کو زندہ کرتا ہے۔ پس یہی بیج کامل بیج ہوتا ہے۔ (سرّ الاسرار)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اسمِ اللہ ذات اور کلمہ توحید کی حقیقت سمجھا کر اس کی تلقین سے مردہ دلوں کو حیات بخشتے ہیں۔ طالب کو اقرار باللسان سے تصدیق بالقلب پر پہنچا کر اس کے ایمان کی تکمیل کرتے ہیں۔ کلمہ ٔ توحید کا اصل فیض اور اثر صرف اس کے الفاظ میں نہیں بلکہ اس کے حقیقی معنوں میں پنہاں ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنی تلقین سے طالب پر کلمۂ توحید کے اصل معنی کھول دیتے ہیں جس کے بعد طالب دیدارِ الٰہی حاصل کرکے اپنی باطنی آنکھوں سے، جو آپ ہی کی مہربانی سے اپنی بصیرت حاصل کرتی ہیں، یہ دیکھنے کے لائق بن جاتا ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ’’نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ تعالیٰ کے۔‘‘ آپ ہی کی مہربانی اور رہنمائی سے طالب کو مجلسِ محمدی ؐتک رہنمائی حاصل ہوتی ہے جہاں وہ ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)‘‘کی حقیقی قلبی تصدیق کر کے اپنے ایمان کی تکمیل کو پہنچتا ہے۔
پس آپ مدظلہ الاقدس اپنی مہربانی اور اپنے بے پایاں فیض سے ایک طالب کو ’اَسْفَلَ سَافِلِیْن‘ کے مرتبے سے اٹھا کر ’اَحْسَنِ تَقْوِیْم‘ کے مقام تک پہنچا دیتے ہیں۔ بے شک آپ کا وجود طالبانِ مولیٰ پر اللہ کا احسانِ عظیم ہے۔ اس احسانِ عظیم کا تشکر کسی طور ممکن نہیں ۔ آپ مدظلہ الاقدس کی ذات طالبانِ مولیٰ کے لیے ایسا محور و مرکز بن جاتی ہے جس کی مقنا طیسی کشش انہیں کسی بھی لمحہ آپ مد ظلہ الاقدس سے جدا نہیں ہونے دیتی۔ ہر طالب اپنے اپنے مدار میں بس آپ ہی کے گرد گردش کرتا رہتا ہے جیسے کہ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مرشد مکہ تے طالب حاجی، کعبہ عشق بنایا ھوُ
وِچ حضور سدا ہر ویلے، کریئے حج سوایا ھوُ
ہِک دَم میتھوں جدا نہ ہووے، دِل ملنے تے آیا ھوُ
مرشد عین حیاتی باھوؒ، میرے لوُں لوُں وِچ سمایا ھوُ
مفہوم: مرشد مکہ، عشق کعبہ اور طالبِ مولیٰ حاجی ہے۔ ایسا طالبِ مولیٰ ہر لمحہ حضوری میں رہتا ہے اور کعبۂ عشق کا طواف کرتا رہتا ہے، یہی اس کا حج ہے۔ میرا مرشد ایک لمحہ کے لیے بھی مجھ سے جدا نہیں ہوتا اور اب تو دِل مکمل وصال چاہتا ہے۔ مرشد روح کی طرح میرے لوُں لوُں میں سمایا ہوا ہے۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)
ایہہ تن میرا چشماں ہووے، تے میں مرشد ویکھ نہ رَجاّں ھوُ
لوُں لوُں دے مڈُ لکھ لکھ چشماں، ہِک کھولاں تے ہِک کجاّں ھوُ
اِتنا ڈِٹھیاں صبر ناں آوے، میں ہور کِتے وَل بھَجاّں ھوُ
مرشد دا دیدار ہے باھوؒ، مینوں لکھ کروڑاں حجاّں ھوُ
مفہوم: کاش میرا سارا جسم آنکھ بن جائے تاکہ وہ یکسو ہو کر ہر لمحہ مرشد کا دیدار کرتا رہے۔ بلکہ یہ بھی کم ہے، میری طلب تو یہ ہے کہ میرے جسم کے ہر بال میں لاکھ لاکھ آنکھیں ہوں تاکہ آنکھ جھپکتے وقت لمحہ بھر کے لئے کچھ آنکھیں اگر بند بھی ہو جائیں تو میں باقی کھلی آنکھوں سے مرشد کے دیدار میں محو رہوں۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ مرشد کے دیدار میں ہر لمحہ محو رہنا ہی طالب کے لئے کامیابی کی کلید ہے۔ اتنی آنکھوں سے دیدار کرنے کے باوجود بھی میری طلب اور خواہش کم نہیں ہورہی بلکہ دیدار کے لیے بے چینی اور بے قراری بڑھتی ہی جارہی ہے۔ یہی بے قراری اور بے چینی مجھے فقر کی اگلی منزل تک رسائی کی خبر دیتی ہے۔ مرشد کا دیدار تو میرے لئے کروڑہا حج کے برابر ہے۔ اللہ کرے یہ حالت مجھے ہمیشہ نصیب رہے۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)